ذیشان کو دہشت گرد ثابت کرنے کی کوششیں مسلسل ناکامی کا شکار

امت رپورٹ
سانحہ ساہیوال میں ہلاک ذیشان جاوید کو دہشت گرد ثابت کرنے کی حکومتی کوششیں مسلسل ناکامی کا شکار ہیں۔ اس سلسلے میں دو روز قبل دی جانے والی ان کیمرہ بریفنگ میں ایڈیشنل سیکریٹری پنجاب فضیل اصغر صحافیوں کو قائل کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہے تھے اور گزشتہ روز اس حوالے سے پنجاب اسمبلی میں بلائے جانے والے ان کیمرہ اجلاس میں ارکان صوبائی اسمبلی نے بھی حکومتی موقف یکسر مسترد کر دیا۔
یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ سانحہ ساہیوال میں جاں بحق خلیل، ان کی اہلیہ نبیلہ اور کمسن بیٹی اریبہ کو پہلے ہی حکومت بے گناہ قرار دے چکی ہے۔ تاہم ذیشان کے بارے میں حکومت کا اصرار ہے کہ وہ ایک خطرناک دہشت گرد تھا۔ لہٰذا اب تک ہونے والی دونوں ان کیمرہ میٹنگیں ذیشان کے بارے میں تھیں۔
ان کیمرہ بریفنگز میں شریک ذرائع کا کہنا ہے کہ دونوں اجلاسوں میں شرکا کو اس اہم ترین سوال کا جواب نہیں مل سکا کہ ’’گولی کس کے حکم پر چلائی گئی تھی؟‘‘۔ جبکہ یہ اعتراف کرلیا گیا ہے کہ ذیشان کا کسی قسم کا کرمنل ریکارڈ موجود نہیں۔ نہ ہی اب تک کسی واردات میں اس کے ملوث ہونے کا ثبوت مل سکا ہے۔ تاہم حکومت ذیشان کو کھوکھلی بنیادوں پر دہشت گرد قرار دینے کی کوششیں کر رہی ہے۔ ان میں سے ایک مقتول ذیشان کے موبائل کیمرہ سے حاصل کیا جانے والا مواد ہے اور دوسری بنیاد ذیشان کے زیر استعمال سوزوکی آلٹو کار ہے، جس میں سانحہ والے روز گولیاں برسا کر چار لوگوں کو موت کی نیند سلا دیا گیا۔ ذیشان کے موبائل فون میں موجود آڈیو گفتگو، چند ایس ایم ایس اور واٹس ایپ پیغامات کے علاوہ ایک سیلفی کی بنیاد پر ذیشان کو "Hardcore Terrorist” ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ تاہم ذرائع کے بقول ان ’’شواہد‘‘ کی ساکھ اس لئے مشکوک ہوچکی ہے کہ جے آئی ٹی نے اب تک موبائل فون فارنسک تجزیہ کے لئے لیبارٹری نہیں بھیجا ہے، جس سے موبائل فون میں اپنی مرضی کی فوٹو شاپ اور مواد شامل کرنے کا شک پیدا ہوتا ہے۔ ذرائع کے مطابق پہلی ان کیمرہ بریفنگ کے دوران یہ سوال ایڈیشنل سیکریٹری پنجاب سے پوچھا بھی گیا تھا، لیکن وہ معقول جواب دینے سے قاصر رہے۔ ان کیمرہ بریفنگ میں ذیشان کے موبائل فون میں موجود آڈیو ریکارڈنگ بھی شرکا کو سنائی گئی۔ جس کے بارے میں ایڈیشنل سیکریٹری کا دعویٰ تھا کہ یہ عدیل حفیظ اور ذیشان جاوید کے درمیان ہونے والی گفتگو ہے۔ اس گفتگو میں دو افراد آپس میں اس قسم کی باتیں کر رہے ہیں۔ ’’تم وہاں کب تک پہنچو گے، میں وہاں پہنچ رہا ہوں، تم جلدی کرو، وہ مان نہیں رہا‘‘۔ ذرائع کے بقول ثانوی نوعیت کی اس بات چیت سے ایک تو گفتگو کرنے والوں کے خطرناک ارادوں کا اظہار نہیں ہو رہا اور پھر یہ کہ جب تک اس ریکارڈنگ کا فارنسک تجزیہ نہیں کرالیا جاتا، یہ تعین کیسے کیا جاسکتا ہے کہ عدیل حفیظ اور ذیشان جاوید کی یہ آوازیں اصلی ہیں یا جعلی ہیں۔
ذیشان کو دہشت گرد قرار دینے کے لئے جس دوسرے بنیادی نکتے پر زور دیا جارہا ہے، وہ مقتول کے زیر استعمال سوزوکی آلٹو کار ہے۔ کہا جارہا ہے کہ یہ کار فیصل آباد میں ہلاک ہونے والے داعش کے دہشت گرد عدیل حفیظ کی ملکیت تھی اور بعد میں اسے ذیشان نے خرید لیا تھا۔ جے آئی ٹی کے بقول جہاں بھی عدیل جاتا، یہ کار اس کو اسکواڈ کرتی تھی۔ تاہم ذرائع نے بتایا کہ یہ کار نہ عدیل حفیظ کے نام پر رجسٹرڈ تھی اور نہ ہی ذیشان نے اسے اپنے نام منتقل کرایا تھا۔ اس حوالے سے پنجاب کے محکمہ ایکسائز میں کسی قسم کا ریکارڈ موجود نہیں۔ سفید رنگ کی یہ آلٹو سوزوکی کار ثاقب مجید نامی ایک شخص کے نام پر رجسٹرڈ تھی۔ بعد ازاں یہ کار اس نے عدیل حفیظ کو بیچ دی۔ لیکن عدیل حفیظ نے اسے اپنے نام منتقل نہیں کرایا تھا۔
ادھر ذرائع نے بتایا کہ جمعرات کے روز پنجاب اسمبلی کی تاریخ میں پہلی بار ہونے والے ان کیمرہ اجلاس میں ایڈیشنل سیکریٹری پنجاب کے علاوہ صوبائی وزیر قانون راجہ بشارت نے بھی بریفنگ دی۔ تاہم مسلم لیگ ’’ن‘‘ اور پیپلز پارٹی کے ارکان کے علاوہ بعض حکومتی ارکان نے بھی اس بریفنگ کو یکسر مسترد کر دیا۔ ذرائع کے بقول ارکان پنجاب اسمبلی کو بھی ان کیمرہ بریفنگ میں وہی گھسی پٹی داستان بیان کرکے قائل کرنے کی کوشش کی گئی، جو اس سے قبل ہونے والی ان کیمرہ میٹنگ میں صحافیوں کو سنائی گئی تھی۔ پنجاب اسمبلی کے ان کیمرہ اجلاس میں اسپیکر پرویز الٰہی کی ہدایت پر پہلے صوبائی وزیر قانون راجہ بشارت نے لب کشائی کی اور بعد میں ایڈیشنل سیکریٹری پنجاب نے پوری جے آئی ٹی رپورٹ پڑھ کر سنادی، جو حکومت کے بقول ابھی ادھوری رپورٹ ہے۔ ذرائع کے مطابق ارکان صوبائی اسمبلی کو بھی ذیشان جاوید کا موبائل فون دکھایا گیا اور اس میں محفوظ ریکارڈنگ سنائی گئی۔ تاہم ارکان اسمبلی نے کم و بیش وہی سوالات اٹھائے، جو صحافیوں نے پوچھے تھے۔ اور حسب سابق ایڈیشنل سیکریٹری پنجاب کسی ایک سوال کا بھی تسلی بخش جواب نہ دے سکے۔ ان کیمرہ اجلاس کے بعد پنجاب میں قائد حزب اختلاف حمزہ شہباز شریف نے جی آئی ٹی رپورٹ باقاعدہ مسترد کرنے کا اعلان کرتے ہوئے واقعہ کی تحقیقات کیلئے جوڈیشل کمیشن بنانے کا مطالبہ کیا۔
پنجاب اسمبلی کے ان کیمرہ اجلاس سے پہلے صحافیوں کو دی جانے والی ان کیمرہ بریفنگ کی کافی تفصیلات منظر عام پر آچکی ہیں، جس میں یہ حکومتی اعتراف بھی شامل ہے کہ سی ٹی ڈی پنجاب کی یہ کارروائی ناقص منصوبہ بندی کے تحت کی گئی، اور یہ کہ ساہیوال آپریشن سے قبل سی ٹی ڈی اہلکاروں کو معلوم نہیں تھا کہ گاڑی میں کتنے افراد سوار ہیں۔ جبکہ آپریشن سے قبل وہ ذیشان کے بارے میں بھی کچھ نہیں جانتے تھے۔
لگ بھگ ڈھائی گھنٹے طویل اس ان کیمرہ بریفنگ کی مزید تفصیلات جاننے کے لئے ’’امت‘‘ نے معروف صحافی رئیس انصاری سے رابطہ کیا تو انہوں نے تصدیق کی کہ دوران بریفنگ ایڈیشنل سیکریٹری فضیل اصغر نہ صرف مکمل طور پر کنفیوژڈ نظر آئے، بلکہ ایسا لگتا تھا جیسے انہیں اسکرپٹ دے کر بریفنگ میں بھیج دیا گیا ہے کہ فلاں فلاں باتیں آپ نے کہنی ہیں، اور اس کے علاوہ کچھ نہیں کہنا۔ یہی وجہ ہے کہ ایڈیشنل سیکریٹری، صحافیوں اور اینکرز کے کسی ایک سوال کا بھی تسلی بخش جواب نہیں دے سکے۔ اجلاس میں شریک رئیس انصاری کے مطابق یہ بات بھی حیران کن تھی کہ ان کیمرہ بریفنگ میں سی ٹی ڈی یا جے آئی ٹی کے کسی ایک فرد کو بھی نہیں بٹھایا گیا اور سارا معاملہ ایڈیشنل سیکریٹری کے حوالے کردیا گیا، جو بذات خود اس واقعہ کی تمام تر جزئیات سے لاعلم دکھائی دے رہے تھے۔ رئیس انصاری کے بقول ایک موقع پر انہوں نے ایڈیشنل سیکریٹری پنجاب کو کہا کہ جس طرح ساہیوال واقعہ کے بعد بوکھلاہٹ میں ہینڈ آئوٹ جاری کر دیا گیا تھا، اسی نوعیت کی آپ کی بریفنگ لگ رہی ہے۔ تفتیش کاروں کو ذیشان کا موبائل فون ملا اور اس سے ملنے والے مواد پر آپ نے اسے خطرناک دہشت گرد بنادیا۔ فون کا فارنسک تجزیہ کیوں نہیں کرایا گیا؟ اس کے برعکس ساہیوال واقعہ کے تناظر میں ایک روز بعد گوجرانوالہ میں جن دو دہشت گردوں کو مارا گیا، ان کی چیزیں فوری فارنسک تجزیے کے لئے لیبارٹری بھیج دی گئیں۔ رئیس انصاری کے مطابق اس سوال کا ایڈیشنل سیکریٹری کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ کمزور سے لہجے میں بولے کہ موبائل فون کو اب لیبارٹری بھجوادیا جائے گا۔ جب صحافیوں کے سامنے ذیشان کا موبائل فون پیش کیا گیا تو اس پر فواد عدنان نامی کسی شخص کا نام لکھا تھا۔ ایک معروف خاتون اینکر نے استفسار کیا کہ اس پر تو ذیشان جاوید کے بجائے کسی اور کا نام ہے؟ ایڈیشنل سیکریٹری پنجاب فوری بولے ’’فواد عدنان کو بھی دہشت گرد ہی سمجھئے‘‘۔ اس غیر متوقع جواب پر وہاں موجود صحافی و اینکرز حیران رہ گئے۔ ایک سینئر اینکر نے پوچھا کہ ذیشان کی فائرنگ کے جواب میں سی ٹی ڈی کی جانب سے کار کو نشانہ بنانے کا دعویٰ کیا جارہا ہے، حالانکہ فائرنگ کے وقت کار ڈرائیو کرنے والے ذیشان نے نہ صرف سیفٹی بیلٹ پہن رکھا تھا، بلکہ اس کا ایک ہاتھ گیئر پر تھا۔ کوئی ماہر سے ماہر دہشت گرد بھی اس حالت میں فائرنگ نہیں کر سکتا۔ سکون سے یہ طویل سوال سننے کے بعد ایڈیشنل سیکریٹری نے لب کشائی کی کہ ’’میری رائے میں کار میں اسلحہ نہیں تھا اور فائرنگ بھی نہیں ہوئی‘‘۔ جس پر صحافیوں نے کہا کہ ’’میری رائے‘‘ کیا ہوتی ہے۔ جے آئی ٹی نے باقاعدہ تفتیش کی ہے، لہٰذا رائے کی بجائے ٹھوس بات کی جانی چاہئے۔ ایڈیشنل سیکریٹری سے یہ سوال بھی کیا گیا کہ جب 17 اور 18 جنوری سے آلٹو کار زیر نگرانی تھی، اور ذیشان کے گھر کے باہر کھڑی رہی تو پھر اس وقت کارروائی کیوں نہیں کی گئی، اور ذیشان کو زندہ پکڑنے کا موقع کیوں کھویا گیا؟ اس کے جواب میں کہا گیا کہ قانون نافذ کرنے والے گنجان علاقے میں آپریشن نہیں کرنا چاہتے تھے۔ ایڈیشنل سیکریٹری پنجاب اس سوال کا جواب بھی نہیں دے سکے کہ جس روز گاڑی چنگی امر سدھو سے نکلی اور اسے جائے وقوعہ پر پہنچنے میں کم و بیش ڈیڑھ گھنٹہ لگا۔ اس دوران کارروائی کرنے والوں کے پاس ایک سے زائد مواقع تھے کہ وہ حساس آپریشن سے پہلے تعاقب کرکے یہ تعین کرلیتے کہ گاڑی میں کون اور کتنے افراد سوار ہیں۔ ان کیمرہ بریفنگ میں سب سے اہم سوال یہ تھا کہ ’’گولی کس کے حکم پر چلائی گئی؟‘‘ اس سوال پر ایڈیشنل سیکریٹری پوری طرح زچ ہوگئے اور بولے ’’میں اس بارے میں کیا کہہ سکتا ہوں ۔ اس کا جواب سی ٹی ڈی دے گا‘‘۔
رئیس انصاری کے بقول وہ ایک طویل عرصے تک کرائم رپورٹنگ بھی کرتے رہے ہیں۔ ان کیمرہ اجلاس میں شرکت سے اندازہ ہوتا ہے کہ حکومت کے پاس عدیل حفیظ اور ذیشان جاوید کے درمیان رابطوں کا لنک تو ہے۔ لیکن ٹھوس شواہد موجود نہیں۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment