تابعین کے ایمان افروز واقعات

عاداتِ مبارکہ:
حضرت ابن سیرینؒ کی ایک مبارک عادت یہ تھی کہ جہاں بھی جاتے تھے دین کی بات کیا کرتے تھے، جس چیز کا بھی آدمی بار بار ذکر کیا کرتا ہے وہ چیز دل و دماغ میں بیٹھ جاتی ہے۔ اس لیے دن کے وقت خرید و فروخت کی غرض سے بازار میں چکر لگاتے ہوئے لوگوں کو آخرت یاد دلاتے رہتے اور انہیں دنیاوی کاموں کو بھی دین کے مطابق کرنے کی تلقین کرتے رہتے اور انہیں ایسی اچھی اچھی باتوں کی تلقین فرماتے رہتے، جو ان کے لیے حق تعالیٰ کے قرب کا باعث بنتیں۔
ایک اور عادت یہ تھی کہ لوگوں کے باہمی اختلافات سے الگ تھلگ رہتے، جھگڑوں سے دور رہتے تھے، کبھی کبھی لوگوں سے مزاحیہ انداز میں بھی گفتگو کرتے، جس سے ان لوگوں کے غم زدہ دلوں میں ان کی عزت اور وقار کی کوئی کمی واقع نہ ہوتی، حق تعالیٰ نے ان کو رعب اور دبدبہ سے نواز رکھا تھا اور ان کی محبت لوگوں کے دلوں میں تھی۔ ان کی زبان میں رب تعالیٰ نے اچھا اثر رکھا تھا کہ جو بھی ان کی بات سنتا ہدایت پر آجاتا، یہاں تک کہ لوگ جب بازار میں اپنے کاروبار میں مصروف ہوتے اور انہیں دیکھتے، تو فکرمند ہو جاتے اور رب تعالیٰ کو یاد کرنے لگ جاتے، یعنی یہ ان لوگوں میں سے تھے جن کو دیکھ کر خدا یاد آجاتا ہے۔ ان کی عملی زندگی لوگوں کے لیے بہترین راہ نما تھی۔ تجارت کرتے ہوئے اگر کوئی ایسی صورت پیش آتی، جس میں دنیا کا نفع تو زیادہ ہے، لیکن دین کا نقصان ہے، تو یہ اس صورت کو لیتے جس میں دین کا نفع زیادہ ہو، چاہے دنیوی طور پر کتناہی نقصان کیوں نہ اٹھانا پڑے۔
دوسروں کو حرام سے بچانا:
دین کی باریک باتوں کو سمجھنے اور حلال و حرام پہچاننے میں بعض اوقات ایسا نظریہ اختیار فرماتے تھے جو لوگوں کو بڑا عجیب و غریب نظر آتا۔
مثال کے طور پر ایک شخص نے ان پر جھوٹا دعویٰ کردیا کہ انہوں نے میرے دو درہم دینے ہیں۔ آپؒ نے صاف اس سے انکار کر دیا۔ اس شخص نے کہا: کیا تم قسم اٹھاتے ہو کہ میرے دو درہم تمہارے ذمے واجب الادا نہیں ہیں؟
اس کا خیال تھا کہ اتنی حقیر رقم کی خاطر یہ قسم نہیں اٹھائیں گے۔ لیکن آپؒ نے اسے جواباً ہاں کہا اور قسم کھالی۔ لوگوں نے کہا: اے ابوبکر! صرف دو درہموں کے لیے آپ نے قسم اٹھالی؟ (ابوبکر ان کی کنیت تھی چوں کہ ان کے بیٹے کا نام بکر تھا)۔ حالاں کہ آپؒ نے چالیس ہزار درہم محض شک کی بنا پر چھوڑ دیئے تھے، جب کہ کوئی تاجر شک کی بنا پر اپنا اتنا بڑا نقصان نہیں کرتا۔
فرمایا: ہاں میں نے قسم اس لیے اٹھائی ہے کہ میں نہیں چاہتا کہ اسے حرام کھلاؤں، حالاں کہ میں جانتا ہوں کہ اس انداز میں حاصل ہونے والے دو درہم اس کے لیے حرام ہیں۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment