تثلیث سے توحید تک

عبد الوارث کا تعلق ایک عیسائی گھرانے سے تعلق تھا۔ خدا نے ایمان کی دولت سے نوازا اور پھر ابتلاء اور آزمائش کا ایک دور شروع ہوا، جسے سن کر یقین کیجئے صحابہ کرامؓ کے اسلام قبول کرنے کے واقعات یاد آنا شروع ہو جاتے ہیں۔ اب تک سینکڑوں لوگوں کو مسلمان کر چکے ہیں، جن میں کچھ پادری بھی شامل ہیں۔ ایک ادارے کی بھی بنیاد رکھ چکے ہیں، جس کے قیام کی وجہ یہ تھی کہ نو مسلموں کے مسائل کے حل کے لئے اور ان کی تربیت اور مستقبل کی زندگی کا رخ متعین کرنے کے لئے کوئی رہنمائی موجود نہیں ہے۔ یہ لوگ اسلام قبول کرتے ہی اکیلے ہو جاتے ہیں۔ جو رویہ ہم مسلمان ان کے ساتھ اختیار کرتے ہیں، وہ بہت تکلیف دہ ہے۔
عبد الوارث کا کہنا ہے کہ ’’اسلام قبول کرنے کے بعد بے شمار مسائل میں گھری ہوئی ایک اُنیس سال کی لڑکی سے ملاقات ہوئی تو نہایت معصومانہ انداز میں پوچھنے لگی عبد الوارث بھائی اسلام قبول کرنے کے بعد ہم کب تک عیسائی ہی رہتے ہیں؟
یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے ابھی آسمان گر پڑے گا۔
میں بات کو سمجھ چکا تھا، مگر پھر بھی انجان سا بن گیا اور پوچھا بیٹا کیا ہوا؟
کہنے لگی کہ ایک عرصہ سے کفر اور ایمان کی کشمکش میں تھی۔ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ کیا کروں، اسلام قبول کرتی ہوں تو والدین بہن بھائی رشتہ دار یہاں تک کہ گھر بار سب چھوٹ جاتا ہے اور اگر اسی مذہب پر رہتی ہوں تو رب کی نعمتوں والی جنت چھوٹ جاتی ہے، مگر ایک دن میرے رب نے مجھے ہمت عطا کی اور میں یہ جنگ جیت گئی۔ میں اپنے ارادوں پر غالب تو آگئی مگر ہوا وہی جو تمام ایمان لانے والوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ سب کچھ ختم ہوگیا۔ کسی نے میری بے بسی پر ترس کھاتے ہوئے میری شادی کرا دی۔ وہ میرے ہمدرد اور خیر خواہ تو تھے، مگر میرے والدین تو نہیں تھے کہ جو شادی سے پہلے دیکھتے کہ لڑکا کیا کرتا ہے، کیا کماتا ہے، اخلاق، معاملات، کردار اور خاندان کیسا ہے۔ بس یہ بتایا گیا تھا کہ لڑکا مسلمان ہے۔ شادی کے تیسرے روز ہی مار کٹائی کا سلسلہ جاری ہوگیا جو آخری دن تک جاری ہی رہا۔ نہ مستقل روزگار تھا، نہ ہی رہنے کی جگہ، مگر میں طے کر چکی تھی کہ میں اسی پر صبر شکر کرلوں گی۔ نشہ کے بعد مار کٹائی بھی اب معمول بن چکا تھا۔ یہ سب کسی قدر قابل برداشت امر تھا، مگر جو ناقابل برداشت بات تھی وہ یہ کہ جب اسے نشہ نہ ملتا یا غصہ آتا تو نا صرف اپنے آپ کو بلیڈ سے کٹ لگاتا، بلکہ مجھے بھی مجبور کرتا کہ تم بھی میرے سامنے اپنے جسم پر کٹ لگاؤ اور مجھے مجبوراً یہ سب کرنا پڑتا۔
پھر ذرا ذرا سی بات پر یہ طعنہ کہ ہو تو تم عیسائی کی عیسائی، خاندان ہی تو چھوڑا ہے نا!
ذاتی طور مجھے یہ بات کچھ ہضم نہیں ہو رہی تھی، مگر کل رات جب میں گھر پہنچا تو اہلیہ محترمہ نے بتایا کہ دوران وضو اس کے دونوں بازووں پر بڑے اور گہرے زخموں کے نشان دیکھے، جس میں ایک تو بالکل تازہ ہے اور زخم شدید خراب ہو چکا ہے، فوراً ڈاکٹر کے پاس لے گئے، اسپتال والوں نے کہا کہ یہ پولیس کیس ہے، پہلے FIR کرائو۔ ساری تفصیل بتائی تب جا کر پٹی ہوئی اور خدا خدا کر کے گھر لوٹے۔ رات کافی دیر تک سوچتا رہا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ ایک شخص عقائد، عبادات اور معاملات میں اخلاقی، شرعی اور قانونی تمام حدوں کو پامال کرنے کے باوجود بھی مسلمان کا مسلمان ہی ہے، صرف اس لئے کہ وہ مسلمانوں کے گھر پیدا ہوا ہے اور ایک ایسا شخص جو محض رضائے الٰہی کے لئے اپنا سب کچھ قربان کر کے بھی عیسائی کا عیسائی ہی رہا۔
مجھے یاد ہے جب ایک بار ہمارے ایک نو مسلم بھائی کو مسجد سے محض اس وجہ سے نکال دیا کہ آپ اپنے عیسائی والدین کے ساتھ رہتے ہو۔ میں وہ واقعہ بھی نہیں بھول سکا کہ جب ایک نو مسلم مسجد میں نماز سے کافی دیر پہلے پہنچ گیا۔ سوچا کہ کیوں نا مسجد کی صفائی ہی کردی جائے، لہٰذا وضو خانے کی صفائی شروع کردی۔ لوگوں نے جب دیکھا تو رہا نہ گیا اور کہہ دیا کہ اسلام تو قبول کرلیا ہے، مگر اپنے کام کی عادت نہیں گئی۔ مجھے ذاتی طور پر اسی طرح کے کافی مسائل کا سامنا رہا۔ ایک بار میری امی کی جاننے والی ایک مسلمان خاتون امی کو کہنے لگی کہ عبد الوارث نے کیسا اسلام قبول کیا ہے کہ ابھی تک رہتا تو وہ آپ لوگوں کے ساتھ ہی ہے اور ایک بار تو حد ہی ہوگئی کہ جب ایک دینی محفل میں عاجز کو مدعو کیا گیا، میری اطلاع کے مطابق وہاں پیر طریقت رہبر شریعت و علمائے کرام تو آہی رہے تھے، مگر بیان کے ساتھ ڈھول و ہارمونیم کے ساتھ نعت خواں اور کچھ قوال حضرات بھی تشریف لارہے تھے، جس بنا پر عاجز نے جانے سے معذرت کرلی اور پھر پروگرام کے اختتام پر ایک پیغام موصول ہوا کہ جناب آپ نے اسلام تو قبول کیا ہے، مگر ابھی بھی آپ صحیح مسلمان نہیں بن سکے۔
میں اس بات کو بہت اچھی طرح سے جانتا ہوں کہ یہ کوئی تعلیمات اسلام نہیں ہے، بلکہ معاشرتی سطح پر میرے جیسے مسلمانوں کی کوتاہی اور خود ساختہ تصورات ہیں۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment