اندلس کے قاضی کا فیصلہ

سلاطین اندلس اسلام کے بہت بڑے حکمراں شمار کئے جاتے ہیں۔ ایک یورپی مؤرخ رینو کے بیان کے مطابق، ہسپانیہ کبھی اتنا خوش حال نہیں ہوا جتنا ان کے عہد میں ہوا۔ ایک انگریز مؤرخ لین پول کہتا ہے کہ المنصور نے اندلس کو عظمت کی اس انتہائی بلندی پر پہنچا دیا تھا، جس کا تصور خلیفہ عبد الرحمٰن (الناصر) نے بھی نہیں کیا تھا۔
محمد ابن ابی عامر المنصور، عدل و انصاف کے بہت دلدادہ تھے اور اس معاملے میں ان کا جواب نہیں تھا۔ بقول جسٹس امیر علی:
انصاف سے ان کی محبت ایک ضرب المثل کی حیثیت اختیار کر گئی تھی۔
اندلس کا حکمران بننے سے پیشتر جب وہ قرطبہ کے قاضی تھے، تو انصاف ہی کی خاطر انہوں نے اپنے بیٹے کو مروا دیا تھا۔ (لین پول) دی مورزان اسپین (مسلمان اندلس میں)
تاریخ اندلس کے مصنف رقم طراز ہیں کہ، ایک مرتبہ ان کے چھوٹے بیٹے نے حاکم شہر کا بیٹا ہونے کے غرور میں ایک غریب بچے کو (جو کہ ایک یہودی کا بیٹا تھا) بیت (چھڑی) سے پیٹا۔ وہ فریادی بن کر ابن عامر کے سامنے حاضر ہوا، ابن عامر نے فوراً اپنے بیٹے کو دربار میں طلب کیا اور فریادی کو حکم دیا کہ اب تم اس کی (اپنے بیٹے کی) پیٹھ پر اتنے ہی زور سے بیت کی چوٹ لگائو جتنی اس نے تمہیں ماری تھی۔
حکم کی تعمیل ہوئی، وہ نازوں کا پلا بچہ بھلا اس کی مار کی تاب کہاں لاتا۔ اس کا پتہ پھٹ گیا اور وہیں بھری عدالت میں اس کی وفات ہوگئی۔ لوگوں نے جب یہ نظارہ دیکھا، تو کانپ کر رہ گئے۔
ظالم تو اپنی جگہ تھرا اٹھے اور کسی بھی ظلم کے نام سے بھی کانوں کو ہاتھ لگانے لگے۔ ابن عامر جب گھر لوٹ کر آئے، تو اپنے بیٹے کی لاش سے لپٹ کر خوب خوب روئے اور حق تعالیٰ کے حضور التجا کی کہ اس کے قصور کو معاف کر دے۔
کیونکہ پہلے وہ قاضی (منصف انصاف و عدل) کرنے والا ہے، بعد میں ایک باپ۔ فریاد کرنے لگے: اے خدا اس منصب کا شیوہ (ذمہ داری) اور حق یہی تھا، جو میں نے کیا۔ (تاریخ اندلس عبد القوی ضیاء 733) (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment