جب شہدائے بدر کی قبور کھولی گئیں

شیخ عطیہ محمد سالم علیہ الرحمۃ مسجد نبویؐ کے مشہور مدرس اور مدینہ منورہ کے قاضی تھے۔ 1927ء میں مصر کے گائوں المہدیۃ میں پیدا ہوئے۔ حفظِ قرآن کریم اور ابتدائی تعلیم اپنے ملک میں حاصل کرنے کے بعد مدینہ منورہ آئے اور مسجد نبویؐ کے حلقات میں باقی تعلیمی سلسلہ مکمل کیا۔ اعلیٰ تعلیم کے لئے ریاض یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور الشیخ عبد العزیز بن بازؒ، الشیخ عبد الرزاق عفیفیؒ، الشیخ عبد الرزاق حمزۃؒ اور للشیخ محمد الامین الشنقیطیؒ جیسے وقت کے بڑے بڑے علمائے کرام سے استفادہ کیا۔ پھر رسول اقدسؐ کے اس مقدس شہر کے ہو کر رہ گئے۔
شیخ عطیہؒ مدینہ یونیورسٹی کے اولین استاذ تھے۔ مسجد نبویؐ میں ان کا درس بہت مشہور تھا۔ جون 1999ء میں وفات پائی اور جنت البقیع میں دفن ہوئے۔ انہوں نے بارہ کتابیں لکھیں، جن میں ’’بدر و البدریون‘‘ بھی شامل ہے۔
شیخ عطیہؒ چونکہ مدینہ منورہ کے قاضی اور مسجد نبویؐ کے مدرس تھے، اس لئے جب سعودی حکومت نے غزوئہ بدر کے شہدائے کرامؓ کے اجساد مبارکہ بدر کی قبور سے نکال کر مسجد نبویؐ کے قریب لانے کا فیصلہ کیا تو اس کام کی ذمہ داری شیخ عطیہؒ کے سپرد کی گئی۔ وہ قبر کشائی کرنے والی کمیٹی کے سربراہ مقرر ہوئے۔ چنانچہ جب شہدائے بدر کی قبور مبارکہ کھولی گئیں تو ان حضراتؓ کے اجسام مبارکہ اسی طرح محفوظ موجود تھے، جس طرح کہ ان کو ابھی دفن کیا گیا ہو اور قبر کشائی کرنے والوں کو ایسا رعب ناک منظر سے واسطہ پڑا کہ سعودی حکومت کو یہ فیصلہ تبدیل کرنا پڑا اور قبور مبارکہ پر دوبارہ مٹی ڈال دی گئی۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment