ابو بکر الباقلانیؒ اپنے زمانے کے بڑے عالم تھے، اس لیے عراق کے گورنر نے روم کے بادشاہ کی جانب سے مناظرے کے چیلنج کے جواب میں 371 ہجری میں آپؒ کو قسطنطنیہ روانہ کیا۔ قسطنطنیہ موجودہ استنبول کا پرانا نام ہے۔ جو اس وقت رومی سلطنت کا پایہ تخت تھا۔
جب روم کے بادشاہ کو معلوم ہوا کہ خلیفہ کی طرف سے مناظرے کے لیے بھیجے جانے والے عالم ابو بکر الباقلانیؒ پہنچنے والے ہیں تو اپنے آس پاس موجودلوگوں کو حکم دیا کہ ان کے دروازے سے داخل ہونے سے پہلے دروازے کے بالائی حصے کو نیچے کیا جائے تاکہ وہ جھک کر اندر آنے پر مجبور ہو اور ایسا لگے کہ بادشاہ کے سامنے جھک گئے۔
جب امام باقلانیؒ دروازے پر پہنچے تو سمجھ گئے کہ کیوں ایسا کیا گیا ہے۔ اس لیے منہ باہر کی طرف کر کے اور پشت بادشاہ کی طرف کر کے دروازے سے داخل ہوئے!
بادشاہ سمجھ گیا کہ ذہانت اس عالم پر ختم ہے!
امام باقلانیؒ اندر آئے اور سلام کے بجائے صرف خیریت پوچھی، کیونکہ کفار کو سلام جائز نہیں، پھر بادشاہ کے پاس بیٹھے۔ سب سے بڑے راہب سے مخاطب ہو کر کہا: کیا حال ہے، بیوی بچے کیسے ہیں؟ اس پر رومی بادشاہ لال پیلا ہو گیا اور کہا: کیا آپ کو معلوم نہیں کہ ہمارے راہب شادی نہیں کرتے تو ان کے بچے کہاں ہو ں گے؟!!
امام ابوبکرؒ نے کہا: واہ! جی واہ! اپنے راہبوں کو شادی اور بچے پیدا کرنے سے پاک قرار دیتے ہو اور اپنے رب پر الزام لگاتے ہو کہ مریم سے شادی کی اور مسیح پیدا ہوئے!!
بادشاہ نے غصے سے کہا: حضرت عائشہؓ کے بارے میں کیا کہتے ہو؟
امام ابوبکرؒ نے کہا: جس طرح یہودیوں نے مریم پر تہمت لگائی تھی، اسی طرح منافقین نے حضرت عائشہؓ پر تہمت لگائی، مگر دونوں پاک دامن ہیں، فرق اتنا ہے کہ حضرت عائشہؓ نے شادی کی، مگر کوئی اولاد نہیں ہوئی اور مریم نے شادی نہیں کی، مگر اولاد ہو گئی، اس لیے باطل تہمت کا خطرہ کس کو زیادہ ہے؟!
مگر خدا کے نزدیک دونوں پاک دامن ہیں۔ اس پر تو بادشاہ پاگل ہو گیا اور لال پیلا ہو کر کہا: تمہارے نبیؐ نے کوئی جنگ کی ہے؟
ابو بکرؒ نے فرمایا: جی ہاں۔
بادشاہ نے پوچھا: کیا فرنٹ لائن میں لڑتے تھے؟
ابو بکرؒ کہنے لگے: جی ہاں۔
بادشاہ نے پوچھا: فتح یاب ہوتے تھے؟
ابو بکرؒ نے فرمایا: جی ہاں۔
بادشاہ نے پوچھا: کبھی شکست بھی کھائی؟
ابو بکرؒ نے کہا: جی ہاں۔
بادشاہ نے اعتراض کیا: یہ کیسے نبی ہیں، جو شکست
کھاتا ہے؟
ابو بکرؒ نے مسکت جواب دیتے ہوئے کہا: تمہارا معبود کیسا ہے، جس کو پھانسی دی گئی؟! یہاں کافر بے بس ہو گیا اور کوئی جواب نہ دے سکا۔
٭٭٭٭٭