ضیاء چترالی
ڈاکٹر زغلول النجار دورِ حاضر کی ان چند عبقری شخصیات میں سے ہیں، جو علمی و سائنسی میدان میں اسلام کی گرانقدر خدمات انجام دے رہی ہیں۔ اس نامور دینی داعی کا تعلق مصر سے ہے۔ وہ جامعہ قاہرہ کے فارغ التحصیل اور برطانیہ کی University of Wales کے پی ایچ ڈی (جیالوجی میں) ہیں۔ اِس وقت وہ سعودی عرب میں مقیم اور کنگ عبد العزیز یونیورسٹی جدہ میں ارضیات کے پروفیسرہیں۔ وہ الھیئۃ العالمیۃ للاعجاز العلمی فی القرآن و السنۃ (Commission on Scientific Signs in the Quran and Sunnah) کے بانی اور رئیس ہیں۔ جبکہ مصر کی سپریم کونسل آف اسلامی امور کی کمیٹی کے بھی وہ سربراہ ہیں۔
ڈاکٹر زغلول النجار مغربی یونیورسٹیوں میں اسلامی موضوعات پر لیکچرز دیتے ہیں۔ جبکہ مختلف ٹی وی چینلز پر انہیں بطور مہمان بلایا جاتا ہے۔ ان کے لیکچرز اور بیانات بہت مشہور اور بڑے شوق سے سنے جاتے ہیں۔
ایک ٹی وی پروگرام میں ان کا کہنا تھا کہ ایک دفعہ میں برطانیہ کے مغرب میں واقع کارڈف یونیورسٹی میں لیکچر دے رہا تھا۔ جس کو سننے کے لیے مسلم اور غیر مسلم طلباء کی کثیر تعداد موجود تھی۔ قرآن کریم میں بیان کردہ سائنسی حقائق پر جامع انداز میں گفتگو ہو رہی تھی کہ ایک نو مسلم نوجوان کھڑا ہوا اور ایک آیت کریمہ (سورۃ القمر کی پہلی آیت، جس میں چاند کے دو ٹکڑے ہونے کا ذکر ہے) کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مجھ سے کہا کہ سر! کیا آپ نے خدا تعالیٰ کے اس فرمان پر غور فرمایا ہے، کیا یہ قرآن میں بیان کردہ ایک سائنسی حقیقت نہیں ہے؟
ڈاکٹر زغلول النجار نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ نہیں! کیونکہ سائنس کی دریافت کردہ حیران کن اشیاء یا واقعات کی تشریح سائنس کے ذریعے کی جاسکتی ہے، مگر معجزہ ایک ما فوق الفطرت شے ہے، جس کو ہم سائنسی اصولوں سے ثابت نہیں کر سکتے۔ چاند کا دو ٹکڑے ہونا ایک معجزہ تھا، جس کو حق تعالیٰ نے نبوت محمدیؐ کی سچائی کے لیے بطور دلیل دکھایا۔ حقیقی معجزات ان لوگوں کے لیے قطعی طور پر سچائی کی دلیل ہوتے ہیں، جو ان کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ ہم اس کو اس لیے معجزہ تسلیم کرتے ہیں، کیونکہ اس کا ذکر قرآن و حدیث میں موجود ہے۔ اگر یہ ذکر قرآن و حدیث میں موجود نہ ہوتا تو ہم اس زمانے کے لو گ اس کو معجزہ تسلیم نہ کرتے۔
علاوہ ازیں ہمارا اس پر بھی ایمان ہے کہ خدا ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ پھر انہوں نے چاند کے دوٹکڑے ہونے کے واقعہ کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ احادیث کے مطابق ہجرت سے 5 سال قبل قریش کے کچھ لوگ حضور اقدسؐ کے پاس آئے اور انہوں نے کہا کہ اگر آپ واقعی خدا کے سچے نبی ہیں تو ہمیں کوئی معجزہ دکھائیں۔ حضور اقدسؐ نے ان سے پوچھا کہ آپ لوگ کیا چاہتے ہیں؟
انہوں نے ناممکن کام کا خیال کرتے ہوئے کہا کہ اس چاند کے دو ٹکڑے کر دو۔ چناچہ حضور اقدسؐ نے چاند کی طرف اشارہ کیا اور چاند کے دو ٹکڑے ہو گئے، حتیٰ کہ لوگوں نے حرا پہاڑ کو اس کے درمیان دیکھا، یعنی اس کا ایک ٹکڑا پہاڑ کے اس طرف اور ایک ٹکڑا اس طرف ہو گیا۔ سیدنا ابن مسعودؓ فرماتے ہیں: سب لوگوں نے اسے بخوبی دیکھا اور آپؐ نے فرمایا: دیکھو، یاد رکھنا اور گواہ رہنا۔
کفار مکہ نے یہ دیکھ کر کہا کہ یہ ابن ابی کبشہ یعنی رسول اقدسؐ کا جادو ہے۔ کچھ اہل دانش لوگوں کا خیال تھا کہ جادو کا اثر صرف حاضر لوگوں پر ہوتا ہے۔ اس کا اثر ساری دنیا پر تو نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ انہوں نے طے کیا کہ اب جو لوگ سفر سے واپس آئیں، ان سے پوچھو کہ کیا انہوں نے بھی اس رات چاند کو دو ٹکڑے دیکھا تھا۔ چناچہ جب وہ آئے، ان سے پوچھا، انہوں نے بھی اس کی تصدیق کی کہ ہاں فلاں شب ہم نے چاند کے دو ٹکڑے ہوتے دیکھا ہے۔ کفار کے مجمع نے یہ طے کیا تھا کہ اگر باہر کے لوگ آ کر یہی کہیں تو حضورؐ کی سچائی میں کوئی شک نہیں۔ اب جو باہر سے آیا، جب کبھی آیا، جس طرف سے آیا، ہر ایک نے اس کی شہادت دی کہ ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ اس شہادت کے باوجود کچھ لوگوں نے اس معجزے کا یقین کرلیا، مگر کفار کی اکثریت پھر بھی انکار پر اَڑی رہی۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭