ان کا یہ اصول تھا کہ بڑی سے بڑی سفارش کے باوجود مجرم یا ملزم کو سخت سے سخت سزا دلوانے اور سفارش کرنے والے حکومتی ذمہ دار (مصاحب) کو ملازمت سے نکال دیتے۔ ایسا ہی ایک واقعہ البیان المغرب کے مصنف نے لکھا ہے کہ، وہ کہتا ہے کہ بادشاہ کے طبیب خاص کے خلاف اس کی بیوی نے دعویٰ کیا۔ قاضی صاحب نے اسے جیل بھیج دیا اور جب اس شخص نے بادشاہ سے سفارش چاہی، تو بادشاہ نے قاضی صاحب کو کہلا بھیجا کہ اسے اس کے جرم سے زیادہ سزا دو، تاکہ آئندہ ہمارے کسی حاکم کو سفارش کرنے کی جرأت نہ ہو۔ (مسلمان حکمراں 438ئ)
علامہ مقریؒ کا بیان ہے کہ ابن ابی عامرؒ رات کو بہت کم سویا کرتے تھے۔ زیادہ تر جاگتے رہتے۔ قرطبہ کا گشت کرتے اور لوگوں کے حالات سے واقفیت حاصل کرتے۔ ایک بار ان کے ایک مصاحب نے (جس کا نام شعلہ تھا) ان سے کہا کہ، اگر آپ کی یہی عادت رہے گی تو صحت بگڑ جائے گی۔ رات کو سو لیا کریں۔ کام کرنے کے لیے دن کافی ہے۔ ابن ابی عامرؒ مسکرائے اور جواب دیا: اے شعلہ، جب حکمران سوتا ہے تو چور اچکے، لٹیرے اور جرائم پیشہ لوگ جاگ اٹھتے ہیں۔ لہٰذا حکمران پر لازم ہے کہ جب رعایا سو جائے، تو وہ ان کی نگہبانی کے لیے خود اپنا سونا حرام کر دے۔
ابن ابی عامر جہاد کی خاک کو نار جہنم سے بچائو کی صورت اور ذریعہ سمجھتے تھے۔ وہ ہر مہم پر روانہ ہونے سے پہلے یہ دعا مانگا کرتے تھے کہ اے اللہ مجھے میدان جنگ میں موت سے ہم آغوش فرما۔
اپنا کفن جو ان کی بیٹیوں نے سیا تھا اور اپنی آبائی جاگیر کی آمدنی سے خریدا گیا تھا، ہمیشہ اپنے ساتھ رکھتے تھے۔
وہ قرآن مجید جو انہوں نے خود اپنے ہاتھ سے لکھا تھا، ہمیشہ ساتھ رہتا تھا۔ جو گرد میدان جنگ میں ان کے منہ اور جسم پر پڑتی تھی، ایک ملازم کو حکم تھا کہ وہ رومال سے جھاڑ کر محفوظ کر لیا کرے۔ ان کا خیال تھا کہ جس پر یہ گرد چھڑکی جائے گی، اس پر جہنم کی آگ حرام ہو جائے گی۔ 10 اگست 1002ء مطابق 28 رمضان المبارک 393ھ کو وہ اس جہان فانی سے رخصت ہوئے اور اسی کفن میں لپیٹے گئے، جو وہ اپنے ساتھ رکھتے تھے اور وہ گرد جو جہاد کے مواقع پر ان کے چہرے اور لباس سے جھاڑی جاتی تھی، ایک تھیلی میں جمع تھی، وہ ان پر چھڑک دی گئی۔
٭٭٭٭٭