جاسوسوں نے پرتھوی راج چوہان کو خبر دی کہ معتوب راجپوت نیا مذہب قبول کرنے کے بعد بہت زیادہ خوش نظر آتے ہیں۔
’’پابندیاں مزید سخت کر دی جائیں‘‘۔ پرتھوی راج چوہان نے دوسرا حکم جاری کیا۔
اس دوران حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ کے چند خادم ملتان اور لاہور چھوڑ کر اجمیر چلے آئے تھے۔ نتیجتاً خدا پرستوں کی تبلیغ نے نیا رنگ اختیار کر لیا تھا۔ پرتھوی راج چوہان کی طرف سے اجازت پاتے ہی وزیر مملکت نے نئی منصوبہ سازی کی۔
حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ کا ایک خادم اپنے پیر و مرشد کے وضو کے لئے اناساگر سے پانی لینے گیا تو وہاں خلاف معمول راجپوت سپاہیوں کی بھیڑ نظر آ رہی تھی۔ حضرت خواجہؒ کے خدمت گار نے ان لوگوں کو یکسر نظر انداز کر کے تالاب سے پانی بھرنا چاہا، لیکن پرتھوی راج چوہان کے سپاہیوں نے اسے یہ کہہ کر روک دیا۔
’’ اب تم اچھوت لوگ اس تالاب کو اپنے گندے ہاتھوں سے ناپاک نہیں کر سکتے۔ اگر پانی چاہتے ہو تو کوئی اور جگہ تلاش کرو‘‘۔
’’پانی تو جانوروں پر بھی بند نہیں کیا جاتا‘‘۔ حضرت چشتیؒ کے خادم نے نہایت شائستہ لہجے میں کہا۔
’’ہاں… لوگ جانوروں پر پانی بند نہیں کرتے۔ مگر تم حیوانوں سے بھی بدتر ہو‘‘۔ پرتھوی راج چوہان کے سپاہیوں نے انتہائی نفرت آمیز لہجے میں حضرت خواجہؒ کے خدمت گار کو جواب دیا۔
اتمام حجت کے طور پر آپؒ کے خادم نے راجپوت سپاہیوں کو سمجھانے کی بہت کوشش کی، مگر وہ طاقت اور اکثریت کے نشے سے سرشار تھے، اس لئے انسانیت اور تہذیب کی زبان سے نکلنے والا کوئی لفظ بھی ان کے دماغوں پر اثر انداز نہیں ہو رہا تھا۔ خادم مجبوراً واپس چلا گیا، اپنے پیر و مرشد سے تمام واقعہ بیان کیا۔
حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ نے اپنے خادم کی گفتگو غور سے سنی اور کچھ دیر تک سوچتے رہے۔ مسلمانوں کی یہ مختصر سی جماعت اپنے شیخ کی خاموشی پر دم بخود تھی، انہیں بھی اس بات سے شدید اذیت پہنچی تھی کہ پرتھوی راج پست حرکتوں پر اتر آیا تھا اور جس کے نتیجے میں ان کے پیرو مرشد وضو کے پانی سے بھی محروم ہو گئے تھے۔ مسلمان راجپوت اپنی ناطاقتی اور بے سرو سامانی پر پیچ و تاب کھا کر رہ گئے۔ حضرت خواجہؒ نے اپنے عقیدت مندوں کو صبر کی تلقین فرمائی۔ پھر اسی خادم کو جو کچھ دیر پہلے پانی لینے جا چکا تھا، اپنے استعمال کا برتن دیتے ہوئے کہا:
’’راجہ کے سپاہیوں سے کہنا کہ آج اس مختصر سے برتن میں پانی بھر لینے دیں، اس کے بعد ہم کوئی دوسرا انتظام کر لیں گے‘‘۔
خادم حکم پاتے ہی دوبارہ ’’ اناساگر‘‘ (تالاب) کی طرف روانہ ہوگیا۔ جب راجپوت سپاہیوں نے اسے اپنی جانب آتے ہوئے دیکھا تو وحشیوں کی مانند قہقہے لگانے لگے۔ خادم نے قریب پہنچ کر حضرت چشتیؒ کے الفاط دہرائے۔ خادم کا لہجہ ایک درخواست گزار کا لہجہ تھا۔ اس لئے راجپوت کچھ دیر مسلمانوں کی بے چارگی اور اپنی برتری سے لطف اندوز ہوتے رہے۔ پھر ایک سپاہی نے بڑی حقارت سے کہا:
’’جا… آج تو تجھے میں نے پانی کے چند قطرے بخش دیئے، مگر کل ادھر کا رخ نہ کرنا‘‘۔
حضرت خواجہؒ کا خادم بڑے سکون سے تالاب کے کنارے پہنچا اور اس نے اپنے پیر و مرشد کے استعمال کا برتن پانی سے بھر لیا۔ چند لمحوں کی بات تھی۔ راجپوت سپاہیوں کے ساتھ حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ کے خادم پر بھی حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے تھے۔ ’’اناساگر‘‘ کا پانی ایک چھوٹے سے برتن میں سمٹ آیا تھا۔ کچھ دیر پہلے جس پر طاقت کے ذریعے پابندیاں لگائی جا رہی تھیں، اس کی حقیقت ظاہر ہو چکی تھی۔ راجپوت سپاہی پتھرائی ہوئی آنکھوں سے اس تالاب کو دیکھ رہے تھے، جس سے کل تک سارا علاقہ سیراب ہو رہا تھا اور اب اس میں پانی کا ایک قطرہ بھی موجود نہیں تھا۔ راجپوتوں کے بقول یہ جادوگری کا ایک عظیم الشان مظاہرہ تھا۔ اگرچہ راجستھان کی پوری سرزمین ساحروں سے بھری ہوئی تھی، لیکن پھر بھی ہندو ساحروں کے بقول مسلمان فقیر کا جادو ان سب پر حاوی تھا۔ یہ ناقابل یقین منظر دیکھ کر پرتھوی راج کے سپاہیوں پر اس قدر دہشت طاری ہوئی کہ وہ وہاں سے بھاگ کھڑے ہوئے تھے۔ خود حضرت خواجہؒ کا خادم بھی لرزتے قدموں سے واپس آیا اور کانپتے لہجے میں تمام واقعہ سنانے لگا۔ آج اسے پہلی بار اپنے پیر و مرشد کی روحانی طاقت کا اندازہ ہوا تھا۔
’’وہ کسی نہ پائیدار چیز پر جھگڑا کر رہے تھے‘‘۔ حضرت خواجہؒ نے انتہائی پُر جلال لہجے میں خدا پرستوں کی اس مختصر سی جماعت کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: ’’جس تالاب کا پانی قدرت خدا وند سے اس فقیر کے کوزے میں سمٹ آیا ہے، وہ خشک بھی ہو سکتا ہے۔ اس کائنات کا خالق اگر سمندر کو بھی سوکھ جانے کا حکم دے تو تو اسے اس کے ارادے سے کون باز رکھ سکتا ہے؟‘‘۔
حضرت خواجہؒ کی ایمان افروز گفتگو سن کر مسلمان راجپوتوں کے افسردہ چہرے شاداب ہو گئے تھے، ہونٹوں کی گم شدہ مسکراہٹ لوٹ آئی تھی اور ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے انہوں نے پرتھوی راج چوہان کی طاقت ور فوجوں سے اپنی شکست کا انتقام لیا ہو۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭