ضیاء چترالی
ڈاکٹر زغلول النجار فرماتے ہیں کہ اس غیر مسلم طالب علم کے بعد ایک برطانوی نو مسلم نوجوان کھڑا ہوا اور اپنا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ میرا نام دائود موسیٰ پیٹ کاک ہے۔ میں اسلامی پارٹی برطانیہ کا صدر ہوں۔ وہ اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بولا کہ سر! اگر آپ اجازت دیں تو اس موضوع کے متعلق میں بھی کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں۔
میں نے کہا کہ ٹھیک ہے، تم بات کر سکتے ہو۔ اس نے اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ اسلام قبول کرنے سے پہلے جب میں مختلف مذاہب کی تحقیق کر رہا تھا۔ ایک مسلمان دوست نے مجھے قرآن شریف کی انگلش تفسیر پیش کی۔ میں نے اس کا شکریہ ادا کیا اور اسے گھر لے آیا۔ گھر آکر جب میں نے قرآن کو کھولا تو سب سے پہلے میری نظر جس صفحے پر پڑی، وہ یہی سورۃ القمر کی ابتدائی آیات تھیں، جن میں چاند والے معجزے کا ذکر ہے۔
ان آیات کا ترجمہ اور تفسیر پڑھنے کے بعد میں نے اپنے آپ سے کہا کہ کیا اس بات میں کوئی منطق ہے؟ کیا یہ ممکن ہے کہ چاند کے دو ٹکڑے ہوں اور پھر آپس میں دوبارہ جڑ جائیں۔ وہ کونسی طاقت تھی کہ جس نے ایسا کیا؟ ان آیات کریمہ نے مجھے اس بات پر آمادہ کیا کہ میں قرآن کا مطالعہ برابر جاری رکھوں۔
کچھ عرصے کے بعد میں اپنے گھریلو کاموں میں مصروف ہوگیا، مگر میرے اندر سچائی کو جاننے کی تڑپ کا خدا تعالیٰ کو خوب علم تھا۔ یہی وجہ ہے کہ خدا کا کرنا ایک دن ایسا ہوا کہ میں ٹی وی کے سامنے بیٹھا ہوا تھا۔ ٹی وی پر ایک باہمی مذاکرے کا پروگرام چل رہا تھا۔ جس میں ایک میزبان کے ساتھ تین امریکی ماہرین فلکیات بیٹھے ہوئے تھے۔ ٹی وی شو کا میزبان سائنسدانوں پر الزامات لگا رہا تھا کہ اس وقت جب کہ زمین پر بھوک، افلاس، بیماری اور جہالت نے ڈھیرے ڈالے ہوئے ہیں، آپ لوگ بے مقصد خلا میں دورے کرتے پھر رہے ہیں۔ جتنا پیسہ آپ ان کاموں پر خرچ کر رہے ہیں، وہ اگر زمین پر خرچ کیا جائے تو کچھ اچھے منصوبے بنا کر لوگوں کی حالت کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔
بحث میں حصہ لیتے ہوئے اور اپنے کام کا دفاع کرتے ہوئے ان تینوں سائنسدانوں کا کہنا تھا کہ یہ خلائی ٹیکنالوجی زندگی کے مختلف شعبوں ادویات، صنعت اور زراعت کو وسیع پیمانے پر ترقی دینے میں استعما ل ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم سرمائے کو ضائع نہیں کر رہے، بلکہ اس سے انتہائی جدید ٹیکنالوجی کو فروغ دینے میں مدد مل رہی ہے۔ جب انہوں نے بتایا کہ چاند کے سفر پر آنے جانے کے انتظامات پر اربوں ڈالرز کا خرچ آتا ہے تو ٹی وی میزبان نے چیختے ہوئے کہا کہ یہ کیسا فضول پن ہے؟ ایک امریکی جھنڈے کو چاند پر لگانے کے لیے اتنے ڈالر خرچ کرنا کہا ں کی عقل مندی ہے؟
سائنسدانوں نے جواباً کہا کہ نہیں! ہم چاند پر اس لیے نہیں گئے کہ ہم وہاں جھنڈا گاڑ سکیں، بلکہ ہمارا مقصد چاند کی بناوٹ کا جائزہ لینا تھا۔ دراصل ہم نے چاند پر ایک ایسی دریافت کی ہے کہ جس کا لوگوں کو یقین دلانے کے لیے ہمیں اس سے دوگنی رقم بھی خرچ کرنا پڑ سکتی ہے۔ مگر تاحال لوگ اس بات کو نہ مانتے ہیں اور نہ کبھی مانیں گے۔
میزبان نے پوچھا کہ وہ دریافت کیا ہے؟ انہوں نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ ایک دن چاند کے دو ٹکڑے ہوئے تھے اور پھر یہ دوبارہ آپس میں مل گئے۔ میزبان نے پوچھا کہ آپ نے یہ چیز کس طرح محسوس کی؟ انہوں نے کہا کہ ہم نے تبدیل شدہ چٹانوں کی ایک ایسی پٹی وہاں دیکھی ہے کہ جس نے چاند کو اس کی سطح سے مرکز تک اور پھر مرکز سے اس کی دوسری سطح تک، کو کاٹا ہوا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم نے اس بات کا تذکرہ ارضیاتی ماہرین سے بھی کیا ہے۔ ان کی رائے کے مطابق ایسا ہرگز اس وقت تک نہیں ہو سکتا کہ کسی دن چاند کے دو ٹکڑے ہوئے ہوں اور پھر دوبارہ آپس میں جڑ بھی گئے ہوں۔
برطانوی نو مسلم نوجوان نے بتایا کہ جب میں نے یہ گفتگو سنی تو اپنی کرسی میں اچھل پڑا اور بے ساختہ میرے منہ سے نکلا کہ خدا نے امریکیوں کو اس کام کے لیے تیار کیا کہ وہ اربوں ڈالر لگا کر مسلمانوں کے معجزے کو ثابت کریں، وہ معجزہ کہ جس کا ظہور آج سے 14 سو سال قبل مسلمانوں کے پیغمبر کے ہاتھوں ہوا۔ میں نے سوچا کہ اس مذہب کو ضرور سچا ہونا چاہئے۔ میں نے قرآن کو کھولا اور سورۃ القمر کو پھر پڑھا۔ درحقیقت یہی سورۃ میرے اسلام میں داخلے کا سبب بنی۔
٭٭٭٭٭