ٹیکسلا میں چرواہے بھائیوں کا بہیمانہ قتل معمہ بن گیا

مرزا عبدالقدوس
ٹیکسلا میں چرواہے بھائیوں کا بہیمانہ قتل معمہ بن گیا۔ کار خان اور شیر خان کی مسخ شدہ لاشیں ایک دوسرے سے کافی فاصلے پر ملی ہیں۔ جبکہ دونوں بھائی ایک ساتھ تھے۔ دونوں روزانہ ہی اپنا ریوڑ لے کر بھلڑ توپ پہاڑی سلسلے سے گزرتے تھے اور شام تک گھر واپس آجاتے تھے۔ پولیس نے ابتدائی تفتیش میں بتایا ہے کہ سینکڑوں بھیڑوں اور بکریوں کے مالک دونوں بھائیوں کی کسی سے ذاتی دشمنی نہیں تھی، جس کی وجہ سے انہیں شبہ ہے کہ دونوں کو لالچ میں آکر قتل کیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ پولیس نے واقعے کی دو ایف آئی آر درج کی ہیں۔ تاہم یہ گتھی اب تک سلجھ نہیں سکی کہ دونوں بھائیوں کو بے دردی سے کیوں قتل کیا گیا۔ قاتلوں نے انہیں مارنے کیلئے بندوق، چھری یا تلوار کا استعمال نہیں کیا، بلکہ انہیں پتھر مار مار کر موت کے گھاٹ اتارا۔ حیران کن طور پر ٹیکسلا ضلع راولپنڈی کے مضافاتی پہاڑی علاقے میں دو چرواہے بھائیوں کو سنگ باری کرکے قتل کرنے کی لرزہ خیز واردات دن دہاڑے کی گئی۔ نامعلوم افراد ان دونوں بھائیوں کی لاکھوں روپے مالیت کی سینکڑوں بھیڑیں اور بکریاں لے کر غائب ہوگئے۔ تشویش ناک امر یہ بھی ہے کہ مقامی افراد میں سے کسی نے بھی ملزمان کو سینکڑوں بھیڑ بکریاں لے جاتے ہوئے نہیں دیکھا۔ حالانکہ اتنی بڑی تعداد میں ان جانوروں کو لے جانے کیلئے کسی ٹرک یا مزدا میں لے جایا گیا ہوگا۔ دونوں بھائی کار خان اور شیر خان بدھ کی صبح اپنا ریوڑ لے کر ٹیکسلا کے علاقے میں سلارگاہ نامی پہاڑی سلسلے میں سے چرانے کیلئے لے کر گئے تھے، جو ان کا روز مرہ کا معمول تھا۔ ان کی واپسی عصر تک ہوجاتی تھی۔ بدھ کو جب شام تک یہ واپس نہ آئے تو ان کے گھر والوں نے پڑوسیوں اور گاؤں والوں کی مدد سے تلاش شروع کی تو دونوں بھائیوں کی مسخ شدہ لاشیں ملیں۔ ان دونوں کے سر پتھر مار مار کر کچل کر انہیں قتل کیا گیا تھا۔ لاشیں دیکھنے کے فوری بعد پولیس کو اطلاع دی گئی جس نے موقع پر پہنچ کر جائے حادثہ کا معائنہ کیا اور لاشیں قبضے میں لے کر سول اسپتال ٹیکسلا پہنچائی گئیں، جہاں پوسٹ مارٹم کرنے کے بعد ان کار خان اور شیر خان کی میت کو ورثا کے حوالے کیا گیا، جو تدفین کیلئے اپنے آبائی علاقے مانسہرہ روانہ ہوگئے۔ پولیس نے اس مقدمہ کی قتل اور ڈکیتی کی ایف آئی آر نامعلوم افراد کے خلاف درج کرلی ہے۔ سب انسپکٹر یاسر عباسی کو اس کیس کا تفتیشی افسر مقرر کیا گیا ہے۔ پولیس ذرائع کے مطابق دو دن گزرنے کے باوجود ابھی تک اس کیس کے بارے میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔
شیر خان اور کار خان پسران گل رحمان کا تعلق مانسہرہ ہزارہ سے تھا، گزشتہ دس بارہ برس سے ان کا معمول تھا کہ سردیوں کے موسم میں جب مانسہرہ میں برف باری ہوتی ہے تو وہ اپنا ریوڑ لے کر ٹیکلسلا کے گاؤں میں آجاتے تھے۔ اور اپریل، مئی میں جب مانسہرہ میں موسم بہتر ہوجاتا تھا تو اپنے ریوڑ کو لے کر واپس آبائی علاقے میں چلے جاتے تھے۔ بھیڑ، بکریاں اور جانور پالنا ان کا آبائی پیشہ اور واحد ذریعہ آمدن بھی تھا۔ اس گاؤں سے متصل وسیع جنگل اور چھوٹے چھوٹے پہاڑی سلسلے سر سبز اور شاداب ہیں، جو بھیڑ بکریوں کی بہترین قدرتی چراگاہ ہیں۔ سلارگاہ، بھلڑ توپ پہاڑی سلسلے میں یہ لوگ ہمیشہ اپنے جانور چراتے تھے۔ حسب معمول بدھ اس علاقے کی طرف گئے لیکن ان کی واپسی نہ ہوسکی، ان کے سروں پر پتھر مار مار کر انہیں قتل کردیا گیا۔ دونوں بھائیوں کی لاشیں ایک دوسرے سے کافی فاصلے پر ملیں، جبکہ لاکھوں روپے مالیت کا ان کا ریوڑ بھی ان کے قاتل اپنے ساتھ لے گئے۔ پولیس ذرائع کے مطابق ان کی کسی سے دشمنی نہ تھی، غریب اور اپنے کاروبار سے دلچسپی رکھنے والے سادہ لوح انسان تھے۔ غالباً لاکھوں روپے مالیت کے ریوڑ کو ہتھیانے کے لالچ میں انہیں قتل کیا گیا، پولیس ذرائع کے مطابق قاتل کم از کم چار یا پانچ تھے، جنہوں نے نہ صرف ان دونوں بھائیوں کو دو مختلف مقامات پر پتھر مار کر قتل کیا بلکہ ان کی بھیڑ بکریاں بھی اپنی کوئی نشانی موقع واردات پر چھوڑے بغیر آسانی سے لے کر چلتے بنے۔ پولیس ذرائع کے مطابق چونکہ ان کی کسی سے دشمنی نہ تھیم نہ کسی جانب سے انہیں جان سے مارے جانے کا خطرہ لاحق تھا، اسی لئے ان کے ہاتھوں میں بھیڑ بکریوں کو ہانکنے کیلئے چند فٹ لمبی کمزور سی چھڑی تھی جو انہیں ان کے ظالم قاتلوں سے بچانے کے کام نہ آسکی اور ان دونوں بھائیوں کو انتہائی بہیمانہ طریقے سے قتل کر دیا گیا۔ پولیس ابھی تک تفتیش میں مصروف ہے اور ان کے پسماندگان کی مانسرہ سے واپسی کے بعد ان سے حاصل معلومات کی روشنی میں تفتیش کا عمل آگے بڑھائے گی۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment