فرشتوں کی عجیب دنیا

فرشتوں کی شکلیں، تعداد اور ذمہ داریاں:
( حدیث) حضرت ابوبکر بن ابی جہمؒ سے مروی ہے کہ آنحضرتؐ نے ارشاد فرمایا:
(ترجمہ) خدا تعالیٰ نے آسمان دنیا کو پیدا فرمایا تو اسے محفوظ چھت بنا دیا اور اس میں حفاظت کے لئے طاقتور محافظ اور شہابے رکھ دیئے۔ اس کے باشندگان دو دو، تین تین اور چار چار پروں والے بیل کی شکل کے فرشتے ہیں، جن کی تعداد ستاروں کے برابر ہے جو تسبیح، کلمہ طیبہ اور تکبیر کسی وقت بھی ترک نہیں کرتے اور دوسرے آسمان کے رہنے والے فرشتے بارش کے قطرات کے برابر عقاب کی شکل میں ہیں۔ نہ تو وہ ( تسبیح پڑھتے ہوئے) اکتاتے ہیں اور نہ (اس میں) وقفہ کرتے ہیں اور نہ ہی وہ سوتے ہیں۔ اسی (دوسرے) آسمان سے بادل ظاہر ہوتے ہیں، جو آسمان کے کناروں کے نیچے سے نکل کر (نچلے) آسمان کی فضاء میں منتشر ہو جاتے ہیں۔ ان کے ساتھ فرشتے بھی ہوتے ہیں، جو ان کو وہیں پر لے کر جاتے ہیں، جہاں پر لے جانے کا حکم دیا ہوتا ہے۔ ان کی ابتدائی آواز تسبیح ہوتی ہے جو ان بادلوں کے لئے دھمکی بھی ہوتی ہے اور تیسرے آسمان کے رہنے والے (فرشتے) ریت (کے ذرات) کے برابر انسانوں کی صورت میں ہیں، جو خدا تعالیٰ سے رات دن پناہ طلب کرتے رہتے ہیں اور چوتھے آسمان کے رہنے والے درختوں کے پتوں کے برابر ہیں، جنہوں نے اپنے کندھے ایک دوسرے سے ملائے ہوئے ہیں۔ ان کی شکل و صورت حور عین کی طرح ہے، بعض تو رکوع کی حالت میں ہیں اور بعض سجدے کی حالت میں ہیں۔ ان کے منہ کی تسبیحات اور ساتوں آسمان اور ساتوں زمینوں کے درمیان نورانیت چمکتی ہے۔ پانچویں آسمان کے رہنے والے فرشتے تمام مخلوق (جانداروں) سے دو گنے ہیں۔ ان کی شکل گدھ کی ہے (جو پرندوں کا بادشاہ کہلاتا ہے) ان میں سے کچھ بڑے درجے کے ہیں اور بعض واقف کار (احکام و اعمال) لکھنے والے ہیں۔ چھٹے آسمان میں رہنے والے فرشتے خدا کی غالب رہنے والی جماعت ہے اور اس کا لشکر اعظم ہے، جو نشان زدہ گھوڑوں کی شکل میں ہیں اور ساتویں آسمان کے فرشتے مقرب فرشتے ہیں اور وہ فرشتے بھی ہیں جو اعمال کو صحیفوں کے درمیان میں رکھ کر اوپر کو پہنچاتے اور اچھے کاموں کی حفاظت کرتے ہیں۔ ان کے اوپر عرش خدا وندی کو اٹھانے والے فرشتے ہیں، جن کو کروبیون کہا جاتاہے۔ (ابوالشیخ)
(فائدہ) ساتویں آسمان سے اوپر کروبیون فرشتوں کے درمیان بھی کئی مقامات ہیں، مثلاً ملا اعلیٰ، خظیرۃ القدس وغیرہ یہاں کے فرشتوں کا ذکر دوسری روایات میں آچکا ہے اور آرہا ہے۔(جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment