تثلیث سے توحید تک

محترمہ آمنہ پچاس سالہ سیاہ فام امریکی خاتون ہیں، جو اپنی سماجی خدمات کی وجہ سے عالمگیر شہرت رکھتی ہیں۔ 1980ء میں ان کے بارے میں جو کتاب شائع ہوئی، اس کے مطابق ساڑھے تین سو افراد نے ان کی ترغیب سے منشیات سے توبہ کی تھی اور اکیس مرد و زن نے اسلام قبول کرلیا تھا۔ قابل ذکر امر یہ ہے کہ ’’شکاگو نیوز‘‘ سے وابستہ زبردست صلاحیتوں کی حامل یہ صحافی خاتون جسمانی اعتبار سے معذور ہے۔ وہ شکاگو کے سلم (SLUM) نامی حبشیوں کے ایک ایسے محلے میں پیدا ہوئی، جو غلاظت، جرائم، منشیات اور غربت و افلاس کا گڑھ تھا۔ اس کا پیدائشی نام سنتھیا (SYNTHIA) تھا اور اس کا باپ بھی اکثر حبشیوں کی طرح آوارہ منش، نشہ باز اور جرائم پیشہ آدمی تھا اور اس کی ماں ہی سفید فاموں کے گھروں میں مزدوری کر کے گھر کا خرچ چلاتی تھی۔ باپ کی لاپروائی اور سنگ دلی کی وجہ سے وہ پچپن میں پولیو کا شکار ہوگئی، مگر وہ غیر معمولی ذہنی صلاحیتوں کی مالک تھی۔ پانچ سال کی عمر میں اس کی ماں ایک سستی سی پہیوں والی کرسی خرید لائی اور اسے ایک اسکول میں چھوڑ آئی۔ سنتھیا نے جب سے بولنا شروع کیا تھا، وہ بار بار کہا کرتی تھی کہ میں اسکول جاؤں گی، میں اسکول جاؤں گی۔
سنھتیا بڑی سمجھدار اور ذہین بچی تھی، وہ اپنی کرسی کو گھسیٹتی ہوئی اسکول چلی جاتی، گھر آجاتی اور کتابیں پڑھتی رہتی۔ اس کے اساتذہ اس کی ذہانت سے بہت متاثر تھے، وہ بڑی صابر اور باہمت بچی تھی، وہ کسی احساس کمتری میں مبتلا نہ تھی۔ دوسرے بچوں کو بھاگتے دوڑتے دیکھ کر وہ اپنی معذوری پر کبھی آنسو بناتی، نہ پریشان ہوتی اور سرجھکائے بڑے اطمینان اور یکسوئی سے مطالعہ کرتی رہتی۔ اس نے اسکول میں اپنی ذہانت کی دھاک بٹھا دی تھی، اسے ہر سال انعام ملا کرتا تھا۔ وقت گزرتا گیا اور سنتھیا سترہ سال کی ہوگئی، اس نے اسکول کی تعلیم مکمل کرلی تھی اور اب یونیورسٹی میں داخلہ لینا تھا، چونکہ اس کی اعلیٰ تعلیمی کارکردگی اور ذہانت سے سب ہی متاثر تھے، اس لئے اسے وظیفہ مل گیا اور پانچ برس تک یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرتی رہی اور اعزاز کے ساتھ اسے مکمل کیا اور ایک مقامی اخبار ’’شکاگو نیوز‘‘ میں اسے ملازمت بھی مل گئی۔
یہی وہ زمانہ تھا، جب سنتھیا امریکہ کے مشہور سیاہ فام رہنما میلکم ایکس کے کردار سے متعارف ہوئی۔ موصوف مشہور معروف جرائم پیشہ اور منشیات فروش حبشی تھا، وہ بے شمار سنگین وارداتوں میں ملوث تھا اور زندگی کا بڑا حصہ جیلوں میں گزار چکا تھا، پھر خدا کاکرنا یہ ہوا کہ میلکم مسلمان ہوگیا اور نہ صرف اس کی اپنی زندگی میں زبردست انقلاب آگیا اور وہ ایک صالح پاکباز انسان بن گیا، بلکہ اس کی تبلیغ و ترغیب سے ہزاروں سیاہ فام لوگوں کی زندگیاں بدل گئیں۔ اس نے سینکڑوں ایسے رضا کار تیار کئے، جو خاص طور پر حبشیوں کو راہ راست پر لانے اور ان کو نشے سے نجات دلانے کیلئے دن رات کوشاں رہتے تھے، یہ ایک نئی تحریک تھی، ایک نیا انقلاب تھا، جو آہستہ آہستہ امریکہ کے حبشیوں میں آرہا تھا اور جو انہیں وقار سے زندہ رہنا سکھا رہا تھا۔ سنتھیا میلکم ایکس کی زندگی کے دونوں پہلوؤں سے واقف تھی، اس لئے اس کے دل و دماغ نے مذہب اسلام سے بھی گہرا اثر قبول کیا تھا اور چونکہ وہ مطالعے کی رسیا تھی، اس لئے اس نے اسلام کے بارے میں بہت کچھ پڑھ ڈالا اور اسے اپنے تصورات اور انسانی فطرت کے عین مطابق پایا تو اسے قبول کرلیا اور ایک روز جبکہ حسب معمول اس کا والد شراب کے نشے میں دھت اس کی ماں کی پٹائی کرنے والا تھا، اس نے اپنے باپ کو سمجھانا شروع کر دیا اور ماں کو صبر کی تلقین کرنے لگی اور گفتگو کی تیزی میں انہیں بتا دیا کہ وہ اسلام قبول کر چکی ہے۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا، اسے خود سنتھیا بلکہ آمنہ کی زبانی سنئے۔
میرے والدین کیلئے ’’مسلمان‘‘ کا لفظ اجنبی بھی نہ تھا، میں نہیں جانتی کہ اسلام اور اسلام کے پیروکاروں کے بارے میں امریکیوں کارویہ بلارنگ و نسل کیوں معاندانہ اور مخالفانہ ہے۔ میری زبان سے یہ سننے کے بعد کہ میں مسلمان ہوچکی ہوں، میرے والد کو بے حد تعجب ہوا، خاص طور پر میری ماں کو بے پناہ صدمہ ہوا۔ اس کا یہ رد عمل تب بہت پریشان کن تھا۔ میں اسے ایک مظلوم عورت سمجھتی تھی، میرا خیال تھا کہ وہ میرے مسلمان ہونے پر زیادہ واویلا نہ کرے گی، مگر ہوا اس کے برعکس۔ میرے والد کے چہرے پر نفرت، حقارت اور استہزاء کے ساتھ ساتھ لاپروائی کی جھلک بھی دکھائی دے رہی تھی اور میری ماں مسلسل بولتی جارہی تھی۔ آج وہ منظر مجھے یاد آتا ہے تو میں بے اختیار مسکرا دیتی ہوں، لیکن اس وقت میرا رد عمل کچھ مختلف تھا۔ میں یہ محسوس کرنے لگی تھی کہ میں نے اسلام قبول کرنے کا اعلان کچھ جلدی کردیا ہے، اس کی وجہ یہ نہ تھی کہ میرے ایمان میں کوئی کمی تھی، بلکہ یہ کہ میں یہ فیصلہ کیا تھا کہ جب تک کہ میں مسلمانوں کے پورے طور و اطوار باطنی اور ظاہری طور پر اپنا نہیں لیتی، تب تک اسلام لانے کا اعلان نہ کروں گی۔ مگر اس لمحے میں خاصی جذباتی ہوگئی تھی، اپنے مسلمان ہونے کا ذکر بڑے جوش اور جذبے سے کردیا۔ میرے والد بڑ بڑاتے ہوئے باہر چلے گئے، میری والدہ مجھے سمجھانے لگیں۔
’’ممی‘‘! میں نے کہا… ’’جو ہونا تھا ہوچکا ہے، میں جو قدم آگے بڑھا چکی ہوں وہ پیچھے نہیں ہٹا سکتی‘‘ میری ماں نے اور زیادہ شدت سے مجھے سمجھانا بجھانا شروع کردیا، میں نے ان سے کہا کہ وہ اپنا وقت بلاوجہ ضائع کررہی ہیں، میں مسلمان ہوچکی ہوں اور اب کچھ نہیں ہوسکتا۔ میری والدہ نے سوچا شاید ضد کررہی ہوں یا جذباتی ہوگئی ہوں، انہوں نے اپنا طویل لیکچر ادھورا چھوڑا اور مجھے اکیلا چھوڑ کر چلی گئیں۔(جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment