جنت میں بوڑھیاں؟

حضرت حسنؓ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایک بوڑھی عورت آنحضرتؐ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا کہ حضور! دعا کیجئے میں جنت میں چلی جائوں۔ آنحضرتؐ نے فرمایا: فلاں کی ماں! جنت میں کوئی بوڑھی نہیں جائے گی۔
وہ عورت یہ سن کر رو پڑی اور جانے لگی۔ آنحضرتؐ نے لوگوں سے فرمایا: اسے بتادو کہ وہ بڑھاپے کی حالت میں جنت میں نہ جائے گی (جوان ہوکر جائے گی)۔ یہ آپؐ اس خاتون سے مزاح فرما رہے تھے۔ (شمائل ترمذی ص 20)
حضرت ابو امامہؓ فرماتے ہیں کہ آنحضرتؐ لوگوں میں سب سے زیادہ ہنس مکھ اور خوش طبع تھے۔ (طبرانی)
حضرت ابوالدردائؓ فرماتے ہیں کہ آپؐ کوئی بات تبسم کے بغیر نہیں کہتے تھے۔ (مسند احمد)
لیکن قہقہے کے ساتھ ہنسنا آپؐ کا معمول نہ تھا، حضرت جابر بن سمرہؓ فرماتے ہیں کہ آپؐ کبھی بے خود ہوکر نہیں ہنستے تھے، بلکہ آپؐ کی ہنسی تبسم تھی۔ (مؤطا مالک و طبرانی)
اور حضرت مرہؒ کے والدؓ فرماتے ہیں کہ جب آپؐ کو زیادہ ہنسی آتی تو آپؐ اپنا دست مبارک منہ پر رکھ لیتے تھے۔ (بغوی۔ کنز العمال ج 4 ص 47)
طلاق کی عجیب قسم
قاضی ابوبکر ابن عربیؒ نقل فرماتے ہیں کہ جس زمانے میں منصور بغداد کا خلیفہ تھا، موسیٰ بن عیسیٰ ہاشمی نام کے ایک شخص نے اپنی بیوی کو فرط محبت میں یہ کہہ دیا کہ: ’’اگر تم چاند سے زیادہ حسین نہ ہو تو تمہیں تین طلاق‘‘ بیوی سخت پریشان ہوئی اور سمجھی کہ طلاق واقع ہوگئی ہے، اس لئے شوہر کے سامنے آنا بھی بند کردیا۔ شوہر نے یہ الفاظ فرط محبت سے کہہ دیئے تھے، مگر جب ہوش آیا تو اسے بھی فکر ہوئی، اور اس کی ساری رات بڑے اضطراب میں گزری، بڑی مشکل سے صبح ہوئی تو وہ خلیفہ منصور کے پاس پہنچا اور واقعہ بتلایا۔ منصور نے فوراً شہر کے بڑے بڑے علماء و فقہاء کو جمع کرکے مسئلہ ان کے سامنے رکھا، اکثر فقہاء کی رائے یہ ہورہی تھی کہ طلاق واقع ہوگئی ہے، اس لئے کہ اس کی بیوی فی الواقعہ چاند سے زیادہ اچھی نہیں ہے۔ لیکن ایک فقیہ تھے جنہوں نے یہ رائے پیش کی کہ طلاق واقع نہیں ہوئی، ان سے وجہ پوچھی گئی تو انہوں نے کہا کہ وجہ یہ ہے کہ قرآن کریم کا ارشاد ہے: (ترجمہ) ’’بلاشبہ ہم نے انسان کو بہترین قوام کے ساتھ پیدا کیا ہے۔‘‘
منصور نے اس جواب کو بے حد پسند کیا اور موسیٰ بن عیسیٰ کو یہی کہلا کر بھیج دیا کہ طلاق واقع نہیں ہوئی۔ (حیاۃ الحیوان للدمیریؒ ج: 1 ص: 32 لفظ: انسان)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment