آیت شفا اور لاعلاج مریض

اس نوجوان کا تعلق سندھ کے ایک ہندو گھرانے سے تھا۔ نوجوانی میں ہی شادی کے کچھ عرصے بعد اسے کینسر کا مہلک مرض لاحق ہوا تو ڈاکٹروں نے لاعلاج کہہ کر زندگی خوشی سے گزارنے کا مشورہ دیا اور کہا کہ اب آپ زیادہ سے زیادہ ایک ماہ کے مہمان ہیں۔ وہ ہارے ہوئے جواری کی طرح اپنے کمرے میں داخل ہوا اور بیڈ پر لیٹ گیا کہ اب میں چند ہی دنوں کا مہمان انسان ہوں۔ بیوی اس کے ساتھ پیار محبت کی باتیں کرنے لگی، لیکن میاں کی عدم دلچسپی بھانپ گئی۔ اسرار کرنے پہ شوہر نے بتایا کہ اس کو بلڈ کینسر ہے، جو آخری اسٹیج پہ ہے۔
بیوی نے یہ سنا تو مسکرا کر بولی ’’آپ ایسے ہی پریشان ہورہے ہیں، بلڈ کینسر بھی کوئی بیماری ہوتی ہے بھلا؟ میں آپ کو ایک ایسی چیز پلا سکتی ہوں، جس کے پینے سے آپ مکمل طور پر صحت یاب ہو سکتے ہیں، لیکن میرے ساتھ ایک وعدہ کرنا ہوگا… آپ جب بھی صحت یاب ہوں تو جو میں کہوں گی، وہ آپ کو کرنا پڑے گا، چاہے آپ کی رضا ہو یا نہ ہو… آپ تیار ہیں؟‘‘
شوہر حیران ہوا کہ جس بیماری کا علاج دنیا کے کسی ڈاکٹر کے پاس نہیں اس کا علاج میری بیوی کے پاس کہاں سے آگیا؟ اس کے ہاتھ کونسا آلہ دین کا چراغ لگ گیا۔ شوہر نے نہ چاہتے ہوئے وعدہ کیا۔ بیوی نے کہا ٹھیک ہے آپ یہی ٹھہریں، میں ابھی آئی۔ کچھ لمحے بعد اس کی بیوی آئی تو اس کے ہاتھ میں ایک جگ تھا، اس نے کرسی پہ بیٹھ کر شوہر کو کہا کہ آپ کو جب بھی پیاس لگے، آپ نے یہی پانی پینا ہے اور پانی نہیں پینا۔
وہ نوجوان جب بھی پیاس محسوس کرتا تو اسی جگ سے پانی پیتا اور بیوی روز اس جگ میں پانی ڈال کر بھرا رکھتی۔ بیوی کو نجانے کیا اعتماد تھا کہ اس کو شوہر کے آخری اسٹیج کے کینسر کی ذرا بھی فکر نہ تھی، بلکہ وہ کینسر کو کوئی مرض ہی نہیں سمجھ رہی تھی، اس کے شوہر کو رہ رہ کر خیال آرہا تھا کہ ایک مہینہ بعد اس کی موت ہو جانی ہے اور اب زندہ رہنے کا کوئی چانس نہیں۔
کچھ دن گزرنے کے بعد اس نوجوان نے خود میں واضح تبدیلیاں محسوس کیں۔ ایک ماہ گزر گیا تو وہ حیران ہوا کہ بقول ڈاکٹر وہ تو ایک ماہ کا مہمان تھا، جبکہ وہ خود کو صحت مند محسوس کرنے لگا۔ لیبارٹری جاکر ٹیسٹ کرایا تو ایک حیرت انگیز انکشاف ہوا کہ آپ کا تو بلڈ کینسر ختم ہو چکا ہے، اس انکشاف سے اس نوجوان کو بہت حیرانگی ہوئی، وہ جلدی سے رپورٹس لے کر دوسرے لیب گیا تو وہاں بھی یہی جواب ملا کہ آپ کا تو کینسر ہی ختم ہو چکا ہے۔ اس نے چار الگ الگ لیب سے ٹیسٹ کروایا اور یہی نتیجہ آیا کہ آپ کا بلڈ کینسر ختم ہو چکا ہے۔
وہ دوڑ کر گھر آگیا اور بیوی کو جھوم کر کہا کہ اس کے پانی نے تو کمال کردیا، وہ اس پانی پینے کے بعد خود کو مکمل طور پہ صحت مند محسوس کر رہا ہے اور لیب کی رپورٹس بھی یہی کہہ رہی ہیں کہ اب آپ کا کینسر ختم ہوچکا ہے۔
اگلے روز بیوی نے میاں کو وعدہ یاد دلایا تو شوہر نے پوچھا کہ بالکل میں ہر وعدہ پورا کروں گا۔ آپ بولو توسہی۔ ’’آپ مسلمان ہوجایئے‘‘ بیوی نے کہا تو شوہر کو بجلی کا ایک جھٹکا لگا ’’مسلمان؟ تمہارا دماغ ٹھیک تو ہے؟ تم نے یہ لفظ کیسے بولا، تیری ہمت کیسے ہوئی، مجھے مسلمان بنانے کی؟ کیا تم مسلمان ہو؟‘‘ ’’ہاں میں مسلمان ہوں۔‘‘ بیوی نے کہا۔ ’’لیکن مجھے تو بتایا گیا تھا کہ تم ہندو ہو، تمہارا تو پورا خاندان ہندو ہے، پھر تم کیسے مسلمان ہوئی؟‘‘ شوہر نے کہا۔
پہلے آپ اپنا وعدہ پورا کریں، اگر وعدہ پورا کریں گے تو سب بتا دوں گی، ورنہ نہیں بتا سکتی۔ شوہر نے کچھ دیر سوچا اور کہا ’’ٹھیک ہے میں مسلمان ہونے کو تیار ہوں۔ اس کے شوہر نے غسل کیا، بیوی نے پاس بٹھایا اور کہا کہ کلمہ شہادت پڑھئے۔ اور اس نوجوان نے اسلام قبول کیا۔
بیوی نے کہا ’’جب میں چھوٹی تھی اور اسکول جایا کرتی تھی تو اس وقت میری ایک کلاس فیلو تھی، وہ مسلمان تھی، ہم دونوں میں دوستی بہت گہری تھی، اسکول کے بعد میں اس کے گھر جاتی تھی، دونوں مل کر اسکول کا کام کرتے۔ وہ روزانہ قرآن پاک کی تلاوت کرتی تو میں بھی پاس بیٹھ جاتی۔ قرآن آہستہ آہستہ میرے دل میں اترنے لگا، یوں ایک دن قرآن دل میں اترا کہ میں 15 سال کی عمر میں چوری چھپکے سے مسلمان ہوئی۔ میں مسلمان ہو کر خود کے اندر سکون محسوس کرنے لگی، قرآن پڑھے بنا چین نہیں آتا تھا۔ آپ کے ساتھ شادی ہوئی تو یہاں بھی چوری سے قرآن پڑھتی رہی۔ زندگی کے اتنے سال آپ سے اپنا ایمان اور اپنا قرآن چھپائے رکھا، بالآخر آپ بیمار ہوگئے اور دوائیوں نے کام نہ کیا، مجھے اس بات کا مکمل یقین ہے، جہاں دوائیاں کام نہیں آتیں، وہی خدا کا کلام پاک کام آتا ہے اور یہ قرآن سینے کی بیماریوں کے لیے دوا ہے، یہی خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے۔
جب آپ زندگی سے ناامید ہوئے اور خود کو مرنے کے قریب پایا تو میں نے قرآن کی یہی آیت پڑھ پڑھ کر پانی پہ دم کیا اور یوں خدا پاک نے آپ کو نئی زندگی دی۔
قارئین! ہم تو قرآن پاک کی برکتوں سے واقف ہی نہیں، اگر ہمیں یقین کے ساتھ اس کی برکتوں کا علم ہوجائے تو ہم کو کہیں جانا ہی نہ پڑے، لیکن افسوس کہ ہمارا یقین کامل نہیں۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment