حضرت خواجہ عثمان ہارونیؒ کی کنیت حضرت کی ابو النور تھی۔ علوم شریعت و حقیقت میں امام عصر اور مقتداے دوراں تھے اور صاحب کرامات بزرگ تھے۔ موضع نیشاپور کے ہارون نامی مقام میں پیدا ہوئے۔ ستر برس ریاضت کی اور اس مدت میں آب وطعام سیر ہوکر نہ کھایا۔
جب آپ کو مرشد نے خرقہ عنایت کیا تو آپ بموجب ارشاد سیاحت کو تشریف لے گئے۔ ایک روز ایک مقام پر پہنچے کہ وہاں آتش پرست رہتے تھے اور ایک آتش کدہ روشن تھا، اس کی پرستش کرتے تھے۔ جب آپ نے اس کے قریب قیام کیا تو خادم سے ارشاد فرمایا کہ تھوڑی آگ لائو کہ روٹی پکائیں۔ خادم آگ لینے اس آتش کدے پر گیا۔ آتش پرستوں نے کہا کہ یہ آگ ہم نہ دیں گے، ہر چند خادم نے تکرار کی، مگر انہوں نے نہ مانا۔ آخر خادم نے حضرت سے آکر عرض کیا۔ آپ خود تشریف لے گئے اور ان سے آتش طلب کی۔ ان لوگوں نے پھر انکار کیا۔ حضرت نے فرمایا کہ تم کیوں انکار کرتے ہو؟ آتش پرستوں نے جواب دیا کہ یہ ہمارا معبود ہے۔ آپ نے فرمایا کہ یہ معبود نہیں، بلکہ معبود نے اس کو پیدا کیا ہے ۔ تم لوگ غافل ہو۔ اگر آتش پرستی سے توبہ کروگے تو قیامت میں آتش دوزخ سے نجات پائو گے۔ انہوں نے کہاکہ اگر تم اس آتش کدے میں کودو اور آگ اثر نہ کرے تو ہم کو یقین ہو کہ تم سچے ہو۔ آپ نے اسی وقت دوگانہ نماز پڑھ کر ایک آتش پرست کی گود میں سے ایک طفل کو لے کر آگ میں ڈال دیا۔ چار گھڑی تک وہ لڑکا آگ میں پڑا رہا اور ایک بال تک نہیں جلا اور پھر آپ بھی درمیانِ آتش تشریف لے گئے ۔ تمام آگ ان پر گلزار ہوگئی۔ تمام مجوس یہ کرامت حضرت کی دیکھ کر حیران ہوئے اور سب نے اسلام قبول کیا اور آپ نے سردار مجوس کا نام عبداللہ اور اس طفل کا نام ابراہیم رکھا اور صدہا مجوس مشرف بہ اسلام ہوئے۔
خواجہ معین الدینؒ نے فرمایا کہ ایک روز ایک شخص شیخ ہارونی کی خدمت میں حاضر ہوا۔ نہایت پریشان اور متفکر تھا۔ حضرت نے استفسار فرمایا کہ کیا حال ہے؟ اس شخص نے عرض کیا کہ برسوں سے میرا فرزند غائب ہے۔ کچھ خبر نہیں کہ زندہ ہے یا مر گیا۔ اب میں امیدوار ہوں کہ میرے فرزند کے آنے کیلئے دعا کیجئے۔ آپ نے سب حاضر ین ِمجلس سے کہا کہ فاتحۂ خیر پڑھو۔ سب نے فاتحہ پڑھنی شروع کی اور آپ مراقبے میں تشریف لے گئے۔ تھوڑی دیر کے بعد آنکھیں کھولیں اور پھر حکم فاتحہ کاحاضرین کو دیا اور پھر مراقبہ فرمایا اور تھوڑی دیر کے بعد آنکھیں کھول کر ارشاد کیاکہ جا، تیرا فرزند تیرے مکان پر آگیا۔ وہ شخص اپنے مکان کو دوڑا گیا۔ دیکھا تواس کا فرزند گھر میں موجود ہے۔ اس سے ملاقات کرکے بہت محظوظ ہوا اور اسی وقت اس کو ہمراہ لے کر حضرت کی خدمت میں حاضر ہوا۔ حضرت خواجہ نے اس لڑکے سے فرمایا کہ تو کہاں تھا اورکیونکر آیا؟ اپنا حال بیان کر۔
اس نے عرض کیا کہ یاحضرت، میں ایک جزیرے میں قوم ِیہود کا قیدی تھا۔ آج ایک ولی مجھ کو وہاں نظر آیا۔ اس نے میری زنجیر کو ہاتھ لگایا، وہ زنجیر فوراً ٹوٹ گئی۔ وہاں سے مکان پر آیا اور والدین سے ملا۔ حضرت نے کہا کہ جائو۔ وہ دونوں مرید ہوئے اور بہت شکریہ ادا کیا۔ تمام حاضرین اس کرامت کو دیکھ کر متحیر ہوئے۔
ایک روز ستر کافر متفق ہوکر حضرت کے پاس امتحان کیلئے آئے اور ہر ایک نے اپنے دل میں قسم طعام اور فواکہہ (پھل) سے قرار دیا کہ اگر یہ شے خواجہ ہم کو کھلادے تو ہم جانیں کہ آج خواجہ کے برابر کوئی روئے زمین پر بزرگ نہیں ہے۔ جس وقت سب جاکر بیٹھے، آپ نے کہا کہ آئو، فرزندانِ آدم! اور خادم سے ارشاد کیا کہ ان کے ہاتھ دھلائو۔ خادم نے سب کے ہاتھ دھلائے۔ حضرت نے خدا کا نام لے کر ہاتھ بلند کیا۔ قسم ِ طعام آپ کے ہاتھ میں آیا۔
آپ نے ان کے سامنے رکھنا شروع کیا اور جو چیز جس کے مرغوب تھی، وہی اس کے سامنے رکھی ۔ ان کافروں نے وہ کھانا کھایا اور یہ کرامت دیکھ کر متحیر ہوئے اور کہنے لگے کہ اے خواجہ، آج تمہارے برابر کوئی عالم میں نہیں ہے۔ اگر ہم لوگ ایمان لائیں اور مسلمان ہوں تو یہ بزرگی ہم کو حاصل ہوسکتی ہے یا نہیں؟ آپ نے فرمایا کہ میں بیچارہ کیا ہوں؟ اگر خداوند ِکریم مہربانی فرمادے تو مجھ سے ہزار درجہ بہتر ہو سکتے ہو۔ سب نے اسلام قبول کیا اور عرش سے لے کر فرش تک ان کو روشن ہوگیا اور چند عرصے میں درجۂ ولایت کو پہنچے اور آپ کی خدمت میں رہے۔
آپ کے چار خلیفہ تھے: ایک حضرت خواجہ معین الدین حسن سنجری چشتیؒ، دوسرے شیخ نجم الدین صغراؒ ، تیسرے شیخ سعدی لنگوہیؒ، چوتھے شیخ محمد ترکؒ اور عمر حضرت کی اکیانوے سال کی تھی اور پانچویں ماہِ شوال 210ھ کو اس دارِ فنا سے طرف ملکِ بقا کے حضرت نے رحلت فرمائی۔
٭٭٭٭٭