ترتیب و پیشکش/ ڈاکٹر فرمان فتحپوری
دلگیر کے 14 اپریل کو لکھے گئے خط کے ساتھ ساتھ قمر زمانی کو نقاد کا تازہ پرچہ مل گیا۔ نقاد جنوری 1913ء میں جاری ہوا تھا۔ دو سال تین مہینے یعنی مارچ 1915ء تک نکلتا رہا۔ پھر مالی مشکلات کی بنا پر بند ہوگیا۔ قمر زمانی نے اپنے خطوط کے ذریعہ دلگیر کو نقاد کے دوبارہ اجرا پر اکسایا اور کامیاب ہوئیں۔ چنانچہ پورے دو سال بعد اپریل 1917ء میں نقاد پھر اسی آب و تاب کے ساتھ منظر عام پر آگیا۔ اب کے قمر زمانی بھی جوائنٹ مدیر کی حیثیت سے اس کی ادارت میں شریک تھیں۔ نقاد اپنے دور اولیں میں انشائے لطیف یا شعر منشور کی تحریک کی نمائندگی کرتا تھا۔ لیکن دوسرے دور میں قمر زمانی سے اپنے رومانی تعلقات کے زیر اثر، دلگیر نے اس کو تخیل پرستانہ انشائیوں کا مرقع بنا دیا۔ قمر زمانی اور دلگیر کی آئندہ خط و کتابت میں چونکہ نقاد کا نیا پرچہ بابت 1917ء بھی زیر بحث آئے گا، اس لئے ان کی مراسلت سے لطف اندوز ہونے کے لئے نقاد کے تازہ پرچے کی بھی ایک جھلک دیکھتے چلئے۔
اس پرچے میں قمر زمانی کے دو مضمون ہیں۔ ایک افتتاحی مضمون، جس کا عنوان ہے ’’نقاد کی زندگی کا دوسرا دور اور میں‘‘۔ اور دوسرا مختصر مضمون ’’جاندار پتی‘‘۔ قمر زمانی کا افتتاحی مضمون انہیں کے خط میں بلاک بنواکر ابتدائی صفحوں میں شائع کیا گیا ہے۔ پورا پرچہ پچاس صفحوں کا ہے۔ دلگیر نے اپنا مضمون ’’افتتاح افتتاحیہ‘‘ کے نام سے صفحہ 44 پر دیا۔ یہ تین صفحوں میں پھیلا ہوا ہے۔ صفحہ 47 پر اپنے مضمون کے بالکل وسط میں دلگیر نے قمر زمانی کے مختصر مضمون ’’جاندا پتی‘‘ کو جگہ دی ہے اور اس پر یہ تعارفی نوٹ لکھا ہے:
’’اس دل کے ٹکڑے پر دفتر کے دفتر نثار ہیں۔ چند سطریں، مگر عطر زندگی لکھنے والی نے اس میں بڑے بڑے نازک خیالوں کا ست کھینچ لیا ہے۔
اس نمبر میں بہت پاکیزہ مضامین ہیں۔ بڑی پیاری نازک خیالیاں ہیں۔ مگر سچ کہتا ہوں کہ سارے نقاد میں اس چاند کے ٹکڑے کا جواب نہیں۔ جسے دیکھ کر میرا جی چاہتا ہے اب کبھی قلم ہاتھ میں نہ لوں۔ (دلگیر)‘‘۔
قمر زمانی اور دلگیر کے ان مضامین کے علاوہ مندرجہ ذیل اصحاب کے مضمون اس پرچے میں شامل ہیں:
ہندوستان کی موسیقی… مولانا عبدالحلیم صاحب شرر ایڈیٹر دلگداز
اردو لٹریچر کا نفس واپسیں… ایم مہدی حسن صاحب افادی
ایک رقاصہ سے… مولانا نیاز محمد صاحب نیاز فتح پوری
ان سے دور… ابوالمعالی مولوی محمد الدین صاحب خلیقی دہلوی
بلبل اور گلاب… ’’عکاس‘‘
یہ سارے مضامین تخیل کی گلابی اور بادۂ شباب میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ مولانا شرر کا مضمون اگرچہ تاریخی، تحقیقی اور عالمانہ ہے۔ لیکن نفس مضمون کے اعتبار سے نقاد کی رومانی فضا کے لئے سازگار ہے۔ یہی صورت مہدی افادی کے مضمون کی ہے۔ اس کا تعلق اگرچہ اردو ادب کے بعض مسائل سے ہے۔ لیکن افادی کے انداز تحریر کی رنگینی و حسن کاری نے اس میں انشائیے کا سا لطف پیدا کر دیا ہے۔ باقی تینوں مضمون کلیتاً شعر منشور کے ذیل میں آتے ہیں۔ سرسید کی عقلیت پسند تحریک ادبی کے بعد اردو میں انشائے لطیف کے نام سے تخیل پرستی اور رومان پسندی کی جو لہر اٹھی تھی۔ یہ مضامین اسی لہر کی نمائندگی کرتے ہیں۔ دلگیر نے ان مضامین کو ادارتی نوٹ کے ساتھ نقاد میں جگہ دی ہے۔ نیاز اور خلیقی کے مضامین، انشا پردازی کے اعلیٰ نمونہ ہونے کی حیثیت سے ادب کے شہ پارے ہیں۔ یہ ہمیشہ زندہ رہنے والے مضامین ہیں۔ ’’تیسرا مضمون‘‘ ’’بلبل و گلاب‘‘، ’’عکاس‘‘ کے نام سے شائع ہوا ہے۔ لیکن یہ ایک فرضی نام ہے۔ دلگیر نے اس مضمون کے شروع میں یہ تعارفی نوٹ دیا ہے:
’’عکاس‘‘۔ یہ بالکل نیا نام ہے، جو نقاد کی معجز نمائی سے عالم وجود میں آیا ہے۔ اس آئینہ کے اندر ایک جوہر لطیف پنہاں ہے، جو اس سے قبل کہیں نہ نظر آیا ہوگا۔ صاحب مضمون باوصف لطیف الطبع ہونے اور مذاق سلیم رکھنے کے، پبلک میں نہیں آنا چاہتے تھے۔ اور اب بھی بے پردہ آنا انہیں منظور نہیں۔ اپنے چہرہ انور کے کے لئے عکاس کا نقاب پسند فرمایا ہے۔ لیکن بالغ نظروں سے ان کی تحریر کا حسن نہیں بچ سکتا۔
حسن چھپتا ہے کہیں اہل نظر کے آگے
لاکھ تصویر کے پردے میں چھپانا چاہا
ایڈیٹر کا یہ نوٹ خود بتاتا ہے کہ ’’عکاس‘‘ فرضی نام ہے۔ یہ مضمون بھی میرا خیال ہے کہ نیاز فتح پوری کا ہے اور اس میں ’’بلبل و گلاب‘‘ کے پردے میں قمر زمانی اور دلگیر کے معاشقے اور مراسلت کی عکاسی کی گئی ہے۔ اس لئے کہ اس مضمون کے علاوہ بھی قمر زمانی کے مسودات میں ایک اور چند سفری انشائیہ ’’عکاس‘‘ کے نام سے مکتوب کی صورت میں اس طرح ملتا ہے۔
کلکتہ
کانگریس ہال
اس بھونرے کی طرح جو ایک سہانی شام کی فضا میں ادھر سے ادھر کسی نکہت نادر و غریب کی تلاش میں سرگرداں باغوں میں دیکھا جاتا ہے۔ بالکل اسی طرح پہلو میں ایک دھڑکنے والی ایک بوئے عنبرین کے لئے بے چین ہونے والی چیز مجھے فضائے بنگالہ میں لے پہنچی۔
کلکتہ جاکر میں کیوں فنا ہو جاتا، اگر یہ بے ارادہ مگر ہمہ عزم شے (شاید دل کی حقیقت یہی ہے) میرے پاؤں کا چکر نہ بن جاتی۔
اس بھونرے کی طرح جو باغ میں کسی شیریں پھول کو دیکھ کر بے تابانہ اس سے لپٹ جاتا ہے اور پھر نشہ ہلاکت کیف سے مدہوش نظر آتا ہے۔ میری جوئندہ نگاہوں نے بھی تجھے دیکھ لیا۔
میں باوجود وفا و خودداری کی سعی تمام کے وہاں پہنچا، جہاں تو تھی اور مجھے کہنے دے کہ میری نگاہیں تیرے جلوے کی شراب زریں کی جرعہ کشی کیا کیں۔
یہاں تک کہ مجھے یقین ہوگیا اگر کائنات میں عشرت کا وجود کہیں ہے تو وہ اس وقت مجھے یہاں حاصل ہے۔ (عکاس)۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭