سعودی عالم کی دوران حراست موت پر سوشل میڈیا صارفین برہم

ضیاء چترالی
مدینہ یونیورسٹی کی القرآن فیکلٹی کے سابق ڈین اور نامور سعودی عالم دین الشیخ احمد العماری کی دورانِ حراست وفات پر سعودیہ سمیت عرب خطے کے سوشل میڈیا میں سخت غم و غصے کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ عرب صارفین شیخ کی موت کو طبعی ماننے سے انکار کر رہے ہیں۔ بعض ذرائع کا دعویٰ ہے کہ 69 سالہ بزرگ عالم دین کو بدترین تشدد کا نشانہ بنا کر ہمیشہ کیلئے خاموش کر کے حکام کے خلاف زبان ہلانے والوں کیلئے سامان عبرت بنایا گیا ہے۔ الجزیرہ اور الشروق کی رپورٹ کے مطابق الشیخ احمد العماری کو گزشتہ برس ان کے گھر پر چھاپہ مار کر بیٹے سمیت گرفتار کیا گیا تھا۔ پانچ ماہ انہیں مسلسل قید تنہائی میں رکھا گیا۔ اہل خانہ کو یہ بھی نہیں بتایا کہ شیخ کا جرم کیا ہے اور ان پر کس الزام میں مقدمات درج کئے گئے ہیں۔ اس دوران ’’معتقلی الرأی‘‘ نامی ٹوئٹر اکائونٹ سے یہ خبر بھی عرب میڈیا میں گردش کرنے لگی کہ استغاثہ نے عدالت سے شیخ سلمان عودہ سمیت زیر حراست سرکردہ علمائے کرام کو تعزیراً قتل کرنے کی سفارش کی ہے۔ ’’معتقلی الرأی‘‘ سعودی عرب میں سیاسی قیدیوں کے بارے میں دنیا کو باخبر رکھنے والا واحد ذریعہ ہے۔ اس نے اپنے ذرائع سے رواں ماہ کے شروع میں ہی اطلاع دی تھی کہ الشیخ العماری کو جان بوجھ کر علاج سے محروم رکھا جا رہا ہے۔ ان کی صحت انتہائی تشویش ناک ہے۔ لندن میں انسانی حقوق کی تنظیم کے ڈائریکٹر یحییٰ اسیری کا کہنا ہے کہ العماری کو گزشتہ سال اگست میں ان کے گھر سے حراست میں لیا گیا تھا۔ العماری کے قریبی دوست اور مسلم اسکالر صفر الحوالی کو بھی گرفتار کیا گیا تھا۔ شیخ السفر الحوالی کو تین ہزار صفحات پر مشتمل ایک کتاب لکھنے پر حراست میں لیا گیا تھا۔ اس کتاب میں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان پر قاتلانہ حملے اور شاہی خاندان کے اسرائیل کے ساتھ گٹھ جوڑ پر تفصیلی بحث کی گئی تھی۔ اسیری کے مطابق شیخ احمد العماری کو 2 جنوری کو طبیعت بگڑنے پر جدہ کے کنگ عبد اللہ میڈیکل کمپلیکس میں داخل کرایا گیا تھا، لیکن ممتاز عالم دین کی موت علاج معالجے میں غفلت برتنے پر ہوئی ہے۔ الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق ممتاز عالم دین شیخ احمد العماری پر دوران حراست اتنا تشدد کیا گیا کہ ان کا دماغ مفلوج ہو گیا۔ اس کے باوجود بھی انہیں طبی سہولیات سے محروم رکھا گیا۔ جب ڈاکٹروں نے شیخ عماری کی دماغی موت (Brain Death) کی تصدیق کر دی تو 20 جنوری کو ان کے اہل خانہ کو بتایا گیا کہ انہیں جدہ جیل سے رہا کیا جا رہا ہے۔ وہ شیخ کو لینے وہاں پہنچے تو زندہ لاش ان کے حوالے کی گئی۔ معتقلی الرأی نے پہلے ہی یہ خدشہ ظاہر کیا تھا کہ شیخ عماری کو سخت تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، جس سے دوران حراست ان کے شہید ہونے کا خدشہ ہے۔ ان پر درج مقدمات ختم کرکے جلدی انہیں اس لئے رہا کرنے کا اعلان کیا گیا کہ کہیں ڈاکٹر ابراہیم المدیمیغ کی طرح جیل سے جنازہ نہ اٹھے۔ جیل سے ’’رہائی‘‘ کے اگلے روز ہی شیخ عماری اسپتال میں ہی قید حیات سے بھی رہا ہوگئے۔ مگر اتنی بڑی شخصیت کی وفات پر بھی سعودی میڈیا میں مکمل خاموشی چھائی رہی۔ شیخ کے بیٹے نے ٹوئٹر سے ان کی وفات کی خبر چلائی۔ جس کے بعد سوشل میڈیا میں ایک طوفان برپا ہو گیا۔ ٹوئٹر اور فیس بک پر صارفین نے اپنے غم و غصے کا دل کھول کر اظہار کیا۔ زیر حراست نامور عالم دین شیخ سلمان عودہ کے بیٹے ڈاکٹر عبد اللہ عودہ نے اپنے ٹوئٹ میں شیخ عماری کی وفات کا عالم اسلام کیلئے بڑا سانحہ قرار دیا۔ العھد الجدید نامی سعودی اکائونٹ نے شیخ عماری کی وفات کو قتل قرار دیا۔ جبکہ بیشتر صارفین کا کہنا تھا کہ ’’کیا وہ وقت نہیں آیا کہ ظلم و ستم کا یہ سلسلہ بند ہوجائے؟‘‘ شیخ عماری کے بیٹے کا کہنا تھا کہ پیر کے روز بعد نماز ظہر مسجد حرام میں میرے والد کی نماز جنازہ ادا جائے گی اور مکہ مکرمہ کے الشرائع قبرستان میں تدفین ہوگی۔ تعزیت کیلئے گھر کے قریب انتظام کیا گیا ہے۔ مگر اس روز شیخ عماری کی وفات کا سعودی میڈیا میں کوئی ذکر نہیں تھا۔ تاہم ہر طرف ملک میں کھلنے والے پہلے فل ٹائم ڈانس کلب کا بڑا چرچا تھا۔ سعودی صارفین کا کہنا ہے کہ شہزادہ محمد بن سلمان کی جانب سے علمائ، صحافیوں اور ادیبوں کے خلاف اس کریک ڈائون کا مستقبل میں مزید سخت ہونے کا خدشہ ہے۔ الجزیرہ سے بات چیت کرتے سعودی سوشل میڈیا ایکٹوسٹ عبد العزیز کا کہنا تھا کہ سعودی عرب میں سیاسی قیدیوں کو کسی قسم کی کوئی سہولیات حاصل نہیں ہیں۔ انہیں بدترین تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ جیل حکام ستّر، اسّی سال کے بزرگوں پر بھی ذرا رحم نہیں کھاتے۔ معتقلی الرأی کے مطابق جیل میں قید مشہور داعی اور مفکر علی العمری کو سخت تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ان کے جسم کا کوئی حصہ زخموں سے خالی نہیں ہے۔ انہیں ستمبر 2017ء میں قید کیا گیا تھا۔ اس کے بعد اب تک ساڑھے تین سو سے زائد علما و مشائخ کو حراست میں لیا جا چکا ہے۔ جن میں امام حرم مکی شیخ صالح، جامعہ امام محمد بن سعود الاسلامیہ کے استاذ اور ممتاز و بزرگ عالم دین شیخ ناصر العمر، شیخ ادریس ابکر، شیخ سلمان عودہ، شیخ سفر الحوالی شامل ہیں۔ جن میں 16 صرف جامعہ امام محمد کے اساتذہ ہیں۔ شیخ صالح پر داعش کیلئے فنڈنگ کا الزام دھرا جا رہا ہے۔ شیخ عودہ کا شمار عالم اسلام کی بڑی علمی شخصیات میں ہوتا ہے، جنہوں نے 62 کتابیں تصنیف کی ہیں۔ انٹرنیشنل یونین آف مسلم اسکالرز دوحہ قطر کے نائب صدر اور یورپی افتاء کونسل کے مؤقر رکن ہیں، اس لئے پوری دنیا میں انہیں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ شیخ سلمان عودہ کے بعد ان کے بھائی خالد عودہ کو بھی گرفتار کیا جا چکا ہے۔ قبل ازیں شیخ عوض القرنی (16 کتابوں کے مصنف) کو ایک ٹوئٹ پر ایک لاکھ ریال جرمانے کی سزا ہوئی تھی، پھر انہیں بھی لاپتہ کر دیا گیا۔ شیخ ناصر العمر 8 بڑی کتب کے علاوہ درجنوں رسالوں کے مصنف ہیں۔ حراست میں لیے جانے والے افراد میں علمائ، صحافی، مفکر، ڈاکٹر، پروفیسر، اسکالر، ادیب اور شاعر بھی شامل ہیں۔ جن میں ڈاکٹر خالد العجمی، پروفیسر عبد اللطیف، ڈاکٹر عمر علی، ڈاکٹر عادل بانعمہ، ڈاکٹر عبد المحسن وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ جبکہ مشہور بزنس مین عصام الزامل بھی گرفتار ہیں۔ ان تمام افراد کو قطر کے حوالے سے سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کے موقف کی حمایت نہ کرنے پر گرفتار کیا گیا ہے۔ ستمبر 2017ء سے اب تک 2613 افراد کو پس زندان دھکیلا جا چکا ہے۔ شیخ سلمان عودہ پر 37 مختلف سنگین الزامات لگائے گئے ہیں۔ ان سمیت ڈاکٹر عوض القرنی اور ڈاکٹر علی العمری کو تعزیراً قتل کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔ جبکہ 2016ء سے گرفتار مشہور عالم شیخ عبد العزیز الطریفی کی جیل میں حالت انتہائی تشویش ناک ہونے کے باعث وہ اسپتال میں ہیں۔ اسی طرح امریکی فوج کی سعودیہ میں موجودگی کے خلاف فتویٰ دینے والے مشہور بزرگ عالم دین شیخ سفر الحوالی کو بھی جیل سے اسپتال منتقل کیا جا چکا ہے۔ اطلاع ہے کہ دونوں علماء کو بھی علاج سے محروم رکھ کر دار البقاء منتقل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے تاکہ نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری۔ ٭
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment