شادی ہال بک کرانے والوں کے لاکھوں روپے ڈوبنے کا خدشہ

اقبال اعوان
سپریم کورٹ کی جانب سے کراچی کے مختلف علاقوں میں قائم شادی ہالز گرانے کی ہدایت ملنے کے بعد سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی نے شہر بھر کے تمام 925 شادی ہالوں کو 3 روز کی مہلت کے نوٹس جاری کردیئے کہ پیر 28 جنوری سے انہدامی کاروائی شروع کی جائے گی۔ تمام شادی ہالوں کو نوٹس دینے پر شادی ہال مالکان اپنے ملازمین کے ساتھ سڑکوں پر آگئے۔ سوک سینٹر کے سامنے اور ایس بی سی اے کے ہیڈ آفس کے سامنے احتجاجی دھرنا دیا۔ جبکہ آج اتوار سے غیر معینہ مدت کے لئے تمام شادی ہالز بند کرنے کا اعلان کردیا۔ تاہم بکنگ کرانے والوں کو ایڈوانس کی رقم واپس نہیں ملے گی، جس کے باعث بکنگ کرانے والے شہریوں کے لاکھوں ڈوبنے کا خطرہ ہے۔ شادی ہالز مالکان ایسوسی ایشن کے ذمہ داروں کا کہنا ہے کہ شادی ہال کسی صورت نہیں گرانے دیں گے۔ قانونی کاروائی کے ساتھ ساتھ احتجاج کا سلسلہ جاری رہے گا۔
سپریم کورٹ نے غیر قانونی شادی ہالوں کا حکم دیا ہے۔ تاہم ایس بی سی اے حکام تمام شادی ہالز کو نوٹس دے رہے ہیں۔ اس کاروبار کی بندش سے ہالز کے 50 ہزار ملازمین اور ویٹرز، کیٹرنگ، ٹرانسپورٹ، الیکٹریشن اور دیگر معاملات والے دو لاکھ افراد متاثر ہوں گے۔ واضح رہے کہ شادی بیاہ کا سیزن زوروں پر ہے۔ جس کیلئے کئی کئی ماہ قبل ہی بکنگ کرادی جاتی ہے اس طرح شہریوں کے لئے نئی پریشانی پیدا ہوگئی ہے۔ شادی ہالز مالکان ایسوسی ایشن کے ذمہ داروں اور ایس بی سی اے کے درمیان مذاکرات ہوئے ہیں، تاہم کہا گیا کہ شادی ہالز والے ہال قانونی ہونے کے حوالے سے ثبوت فراہم کریں۔ اس کے بعد دیکھں گے۔ سپریم کورٹ کی جانب سے چار روز قبل احکامات جاری ہوئے تھے کہ کراچی میں شاہراہ فیصل، راشد منہاس روڈ، یونیورسٹی روڈ اور دیگر شاہراہوں کے اطراف اور رہائشی علاقوں میں قائم شادی ہالز کو گرایا جائے۔ اس دوران احکامات تھے کہ غیر قانونی شادی ہالز جو رہائشی آبادیوں، کنٹونمنٹ ایریاز، میدانوں، پارکوں اور سرکاری زمینوں پر بنا کر چلائے جارہے ہیں، ان کو فوری طور پر مسمار کیا جائے۔ ڈی جی SBCA کو سات دن بعد اگلی سماعت پر کاروائیاں کر کے رپورٹ مانگی گئی تھی۔ جس کے بعد اسی بی سی اے نے شہر بھر کے تمام شادی ہالوں کو نوٹس جاری کردیئے کہ پیر 28 جنوری تک خالی کردیں۔ اس کے بعد انہدامی کاروائی کا آغاز کریں گے۔ بعض کو نوٹس تین دن، بعض کو 24 گھنٹے کا دیا گیا ہے اور ابھی نوٹس مل رہے ہیں۔ اس صورتحال میں شای ہالز مالکان، ملازمین اور ایسوسی ایشن کے ذمہ داروں نے ہفتے کی صبح سوک سینٹر کے سامنے نیو ٹاؤن جانے والی سڑک پر دھرنا دیا۔ مظاہرین نے بینرز اٹھائے ہوئے تھے، جن پر تحریر تھا کہ کراچی میں معاشی قتل عام بند کرو۔ کرپٹ ادارے نے نوٹس جاری کیے ہیں۔ ہمارے قانونی کاروبار اور سرمائے کو ضائع مت کرو۔ حکومتی اداروں کی جاری کردہ این او سی کینسل نہ کرو۔ کرپٹ حکومتی اداروں کی جانب سے سپریم کورٹ کے احکامات کی آڑ میں اب شادی ہالوں کو گرانے کی سازش شروع ہورہی ہے۔ ہر صورت میں مزاحمت کریں گے۔ اگر پچھلے 40 سال سے جاری تمام این او سی (NOC) غیر قانونی تھیں تو پہلے اداروں کے خلاف کاروائی ہونا چاہئیے۔ شادی ہال کا معاملہ شہریوں سے جڑا ہے۔ شہریوں کی خوشیاں تباہ نہ کریں، وغیرہ۔ شدید احتجاج کے دروان ٹریفک روک دی گئی تھی۔ جبکہ شادی ہالز مالکان کے ساتھ آئے ملازمین بھی نعرے بازی کرتے رہے کہ غریبوں کا تو خیال کرلو۔
شادی ہالز مالکان ایسوسی ایشن کے ذمہ دار اشرف کا کہنا تھا کہ ’’ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اب سے رہائشی جگہ کو کمرشل کرنے پر پابندی لگادی جاتی۔ اور جو شادی ہالز باقاعدہ بھاری لینڈ فیس ادا کر کے بنے ہیں اور ہر سال تمام ٹیکس ادا کرتے ہیں، ان کی قانونی حیثیت تسلیم کی جائے۔ لاکھوں لوگوں کا کاروبار ان سے جڑا ہے۔ سپریم کورٹ نے تمام ہالز کوغیر قانونی نہیں کہا ہے۔ ساری ذمہ داری ایس بی سی اے کے ادارے کی ہے کہ اس نے کس طرح غیر قانونی کو قانونی قرار دے کر این او سی جاری کرائی۔ اب یہ ادارہ شہر بھر میں شادی ہال والوں کو نوٹس دے کر اپنی جان بچا رہا ہے۔‘‘ ایسوسی ایشن کے ذمہ دار اعجاز حسن بیگ کا کہنا تھا کہ ’’آج اتوار سے شادی ہالز شہر بھر میں غیر معینہ مدت کے لئے بند کررہے ہیں کہ پیر 28 جنوری سے انہدامی کاروائی کا آغاز ہوسکتا ہے۔ یہ لوگ سارے ہالز توڑنا چاہتے ہیں کہ سارے غیر قانونی ہیں۔ ہم یہ نہیں ہونے دیں گے۔‘‘ شادی ہال کے ایک ملازم محمد نثار کا کہنا ہے کہ ’’کورنگی کراسنگ ہال پر کام کرتا ہوں۔ 5 بچے، بہن بھائی اور والدہ کی کفالت ہوتی ہے اور کوئی کام نہیں ملتا۔ ہال گر جائے گا تو فاقے کریں گے۔‘‘ نذر عباس کا کہنا تھا کہ ’’گھر کے 7 افراد ہال کی وجہ سے دو وقت کی روٹی کھاتے ہیں۔‘‘ عارف کا کہنا تھا کہ ’’گلشن اقبال میں واقع ہال میں 5 سال سے کام کررہا ہوں۔ اگر شادی کی تقریب ہوتی ہے تب 700 روپے دیہاڑی ملتی ہے۔ اگر ہال گر گیا تو اندرون سندھ گاؤں جاکر کیا کروں گا۔ ہر طرف بے روزگاری ہے۔‘‘ شعبان علی کا کہنا تھا کہ ’’ہال میں گذشہ 15 سال سے ویٹری کررہا ہوں اور مہینے میں 13000 روپے ملتے ہیں۔ گھر کے 11 افراد کی کفالت کرتا ہوں۔‘‘ محمد بچل کا کہنا تھا کہ ’’والد اور 3 بھائی ویٹری کرتے ہیں۔ سب بے روزگار ہوجائیں گے۔‘‘
سڑک پر احتجاج کے دوران ایس پی گلشن طاہر نورانی اپنے اہلکاروں کے ساتھ ادھر آئے اور مظاہرین کو ہٹاکر ٹریفک بحال کرائی، جس کے بعد شادی ہالز ایسوسی ایشن کے ذمہ داروں کو سی بی سی اے کے افسران نے مذاکرات کے لئے بلوایا۔ تاہم معاملہ حل نہیں ہوسکا۔ شادی ہالز ایسوسی ایشن والوں نے بتایا کہ ڈی جی ایس بی سی اے نے کہا ہے کہ تمام شادی ہال والے اپنے تمام کاغذات، این او سی، ٹیکس ادائیگی کے کاغذات کی فائل بنا کر جمع کرائیں۔ پھر دیکھیں گے، اور ان کو مختلف کٹیگری میں رکھ کر انہدامی کاروائی کریں گے۔ جبکہ نوٹس کا سلسلہ جاری رہے گا۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment