مولانا سمیع الحق قتل کیس داخل دفتر کرنے کا فیصلہ

مولانا سمیع الحق قتل کیس داخل دفتر کئے جانے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ہائی پروفائل قتل کیس میں ملزمان کی شناخت اور نشاندہی کے بارے میں اب تک کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی ہے۔ دوسری جانب جے یو آئی (س) کے امیر مولانا حامد الحق اپنے والد مولانا سمیع الحق شہید کے ایصال ثواب کیلئے عمرے اور ان کے قتل میں ملوث افراد کی سزا کیلئے دعا کرنے کیلئے ان دنوں حرم شریف میں موجود ہیں۔ مولانا سمیع الحق قتل کیس میں پیش رفت نہ ہونے اور اسے داخل دفتر کرنے کی خبر پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے دس فروری کو اکوڑہ خٹک میں پارٹی کا اجلاس طلب کر رکھا ہے۔ اس اجلاس میں اب تک کی تمام صورتحال کا جائزہ لے کر اور اکابر کو اعتماد میں لے کر آئندہ کا لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔
ادھر مولانا سمیع الحق شہید کا ڈرائیور و سیکریٹری احمد شاہ تقریباً دو ماہ سے پنجاب پولیس اور سیکورٹی اداروں کی حراست میں ہے۔ اس دوران مولانا سمیع الحق کے اہلخانہ یا جامعہ حقانیہ کے کسی ذمہ دار کی احمد شاہ سے ملاقات نہیں کرائی گئی اور نہ ان کے علم میں ہے کہ پولیس اور دیگر اداروں نے احمد شاہ سے کیا معلومات حاصل کی ہیں؟ پولیس ذرائع کے مطابق مولانا سمیع الحق سے ملاقات کرنے اور رابطہ رکھنے والے سولہ افراد سے پوچھ گچھ کی گئی یا ان سے معلومات لی گئیں، جن کی روشنی میں تفتیش کی گئی۔ لیکن قاتلوں کے بارے میں کچھ علم ہو سکا ہے اور نہ ہی یہ کہ قتل کے پس پردہ محرکات کیا تھے؟ البتہ جامعہ حقانیہ کے ذمہ داران اور مولانا سمیع الحق کے خاندان کا موقف واضح اور دوٹوک ہے کہ مولانا کا قتل عالمی استعمار کے ایجنڈے کا حصہ ہے اور انہیں اسلام دشمن بین الاقوامی قوتوں نے قتل کرایا۔ اس سلسلے میں مولانا سمیع الحق کی افغان طالبان سے جذباتی وابستگی اور اپنی شہادت کے صرف دو دن قبل ملعونہ آسیہ مسیح کی بریت کے خلاف ان کی جذبات میں ڈوبی ہوئی انتہائی سخت تقریر کا حوالہ بھی دیا جاتا ہے۔
مولانا سمیع الحق کے ڈرائیور اور سیکریٹری احمد شاہ کو پولیس نے اکوڑہ خٹک سے حراست میں لے کر راولپنڈی منتقل کر دیا تھا۔ اس کے بعد سے وہ سرکاری اداروں کی حراست میں ہے۔ احمد شاہ گزشتہ اٹھارہ بیس سال سے مولانا سمیع الحق کے ساتھ تھا۔ ذرائع کے مطابق راولپنڈی پولیس نے آئی جی پنجاب کو اس کیس کی جو فائل پیش کی ہے، اس میں بتایا گیا ہے کہ احمد شاہ سے تفتیش کے بعد بھی قاتلوں کی نشاندہی نہیں ہوسکی ہے، جس کے بعد پنجاب پولیس کے ذمہ داران نے یہ کیس داخل دفتر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ جے یو آئی (س) کے ذرائع کے مطابق انہیں اس حوالے سے پولیس نے آگاہ نہیں کیا اور نہ ہی پارٹی یا مولانا سمیع الحق کے خاندان کو اس سلسلے میں اعتماد میں لیا گیا ہے۔
مولانا سمیع الحق شہید کے بڑے بیٹے مولانا حامدالحق عمرے کی ادائیگی کیلئے اپنے اہل خانہ اور مولانا یوسف شاہ کے ہمراہ مکہ معظمہ میں ہیں۔ فون پر ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا حامدالحق کا کہنا تھا کہ وہ پچھلے کئی دنوں سے سفر میں ہیں۔ موبائل فون پر بھی ان کا رابطہ بہت محدود ہے۔ اس لئے انہیں پنجاب پولیس کے اس فیصلے سے آگاہی نہیں اور نہ کسی نے بتایا ہے کہ پنجاب پولیس اس کیس کو داخل دفتر کر رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’ہم پنجاب پولیس کی کارکردگی سے مایوس ہیں۔ اس لئے اپنے والد مولانا سمیع الحق شہید کے ایصال ثواب کیلئے عمرے کی ادائیگی اور ان کے قاتلوں کی رسوائی کیلئے دعا کرنے حریف شریف میں حاضر ہوئے ہیں۔ ہم غلاف کعبہ پکڑ کر دعا کریں گے کہ ان کے قاتل بے نقاب اور رسوا ہوں۔ ہم نے اللہ کے سامنے اپنا کیس پیش کر دیا ہے اور اللہ کے گھر میں انصاف کیلئے آئے ہیں ۔ بے شک وہی سب کچھ جاننے والا اور علم رکھنے والا ہے‘‘۔ مولانا حامدالحق نے مزید کہا کہ ’’احمد شاہ کی گرفتاری کے بعد ہماری اس سے ملاقات نہیں ہوسکی۔ نہ ہی ہم اس سے ہونے والی تفتیش یا معلومات سے آگاہ ہیں۔ یہ پولیس، عدالت اور قانون کے معاملات ہیں۔ لیکن ہماری یہ خواہش ضرور ہے کہ احمد شاہ کے ساتھ بھی ناانصافی یا زیادتی نہیں ہونی چاہئے۔ میں نے اپنی جماعت جے یو آئی (س) کا اجلاس دس فروری کو اکوڑہ خٹک میں طلب کیا ہے۔ دیگر امور کے علاوہ یہ کیس اور پولیس کا رویہ بھی ایجنڈے میں شامل ہے۔ ملکی سطح پر تمام دوستوں اور احباب کو اعتماد میں لے کر اور ان کی مشاورت کے بعد آئندہ کا لائحہ عمل طے کریں گے‘‘۔

Comments (0)
Add Comment