ایک عجیب جنتی

خیبرایک وسیع و عریض ذرخیز قطعہ زمین کا نام ہے جو مدینہ طیبہ سے 96 میل کے فاصلہ پر واقع ہے۔ یہاں کے سارے باشندے یہودی تھے۔ اہل خیبر میں سے ایک یہودی کا سیاہ فام غلام تھا جو اس یہودی کا ریوڑ چراتا تھا۔ غزوئہ خیبر کے موقع پر اس غلام نے دیکھا کہ تمام یہودیوں نے ہتیھار سجا لئے ہیں اور جنگ کیلئے حضور اکرمؐ سے تیار ہو گئے ہیں تو اس غلام نے قبیلہ والوں سے پوچھا تمہارا کیا ارادہ ہے؟ انہوں نے اسے بتایا: ہم اس شخص سے لڑنا چاہتے ہیں، جو اپنے آپ کو نبی کہتا ہے۔ ان یہودیوں کی زبان سے نبی اکرمؐ کا ذکر سن کر اسے آپؐ کی زیارت کا اشتیاق ہوا، اس نے اپنا ریوڑ لیا اور اسے چرانے کیلئے مسلمانوں کے اس علاقے میں لے گیا، جہاں آپؐ خیمہ زن تھے۔ مسلمانوں نے اسے پکڑ لیا اور رسول اکرمؐ کے پاس لے آئے۔
ابن عقبہ کا بیان ہے کہ وہ حبشی سیاہ فام خود اپنا ریوڑ لے کر آیا تھا۔ سرکار دو عالمؐ نے اس سے گفتگو فرمائی، اس آدمی نے پوچھا آپ کیا کہتے ہیں اور کس چیز کی دعوت دیتے ہیں؟ حضور اکرمؐ نے فرمایا میں تمہیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دیتا ہوں اور کہتا ہوں کہ تم یہ گواہی دو کہ خدا تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں، جس کی عبادت کی جائے اور میں اس کا رسول ہوں۔ اس غلام نے پوچھا اگر میں یہ شہادت دیدوں اور خدا تعالیٰ پر ایمان لے آئوں تو مجھے کیا ملے گا؟
آپؐ نے فرمایا: اگر تو ایمان لے آیا تو تجھے جنت ملے گی۔ وہ غلام مسلمان ہوگیا اور اس نے آپؐ سے عرض کیا ’’حضور! میں ایسا شخص ہوں جس کی رنگت کالی ہے، جس کا چہرہ بدصورت ہے، جس سے بدبو اٹھ رہی ہے۔ میرے پاس کوئی مال بھی نہیں۔ اگر میں یہودیوں کے ساتھ جنگ کروں اور قتل کر دیا جائوں تو کیا میں جنت میں داخل ہو جائوں گا؟‘‘
حضور اکرمؐ نے فرمایا ’’بے شک۔‘‘ پھر اس نے عرض کیا ’’حضور! یہ بکریاں میرے پاس ان کے مالکوں کی امانت ہیں۔ میں ان کا کیا کروں؟‘‘ حضور اکرمؐ نے فرمایا ان کو لشکر سے نکال کر لے جائو اور انہیں کنکریاں مار کر ان کے مالک کی طرف بھگا دو۔ خدا تعالیٰ تیری امانت تیری طرف سے ان مالکوں کو پہنچا دے گا۔ اس نے ایسا ہی کیا۔
حضور اکرمؐ اس کی دیانت داری پر متعجب تھے۔ وہ بکریاں اکٹھی ہوکر بڑی تیزی سے اپنا مالکوں تک چل پڑیں۔ یوں لگتا تھا جیسے کوئی چرواہا انہیں ہانگ کر لے جا رہا ہے۔ چنانچہ بکریاں اپنے اپنے مالک تک پہنچ گئیں۔ پھر وہ حبشی غلام میدان جنگ کی طرف گیا اور یہودیوں سے لڑنا شروع کیا۔ اسے یہودیوں کی طرف سے ایک تیر لگا اور وہ شہید ہوگیا۔ مسلمان ہونے کے بعد اسے ایک بھی سجدہ کرنے کی مہلت نہ ملی۔ مسلمان اسے اٹھا کر اپنے لشکر کی طرف لے چلے، حضور اکرمؐ نے فرمایا اسے میرے خیمے میں لے جائو۔ چناچہ اس نو مسلم شہید کو حضور اکرمؐ کے خیمے میں پہنچا دیا گیا۔ آپؐ اپنے خیمے میں گئے اور اس شہید کی میت کے پاس ارشاد فرمایا: ’’اے حبشی غلام تیرے چہرے کو خدا تعالیٰ نے خوبصورت بنا دیا ہے۔ تیری بدبو کو خوشبو میں بدل دیا ہے اور تیرے مال کو بہت بڑھا دیا ہے۔‘‘
حضور اکرمؐ نے فرمایا: ’’میں نے حوروں کو دیکھا کہ اس کے چہرے پر لگی گرد و غبار کو صاف کر رہی تھیں اور کہہ رہی تھیں: خدا تعالیٰ اس شخص کے چہرے کو خاک آلود کرے، جس نے تیرے چہرے کو غبار آلود کیا ہے اور اس شخص کو ہلاک کرے، جس نے تجھے شہید کیا ہے‘‘۔ (ابن کثیر)

Comments (0)
Add Comment