معارف القرآن

معارف و مسائل
آخری آیت میں ’’یایھا الذین امنوا‘‘ سے مراد اہل کتاب ہیں، جو عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان لائے، قرآن کریم کی عام عادت یہ ہے کہ ’’الذین امنوا‘‘ کا لفظ صرف مسلمانوں کے لئے بولا جاتا ہے، یہود و نصاری کے لئے اہل کتاب کا لفظ آتا ہے، کیونکہ صرف حضرت موسیٰ و عیسیٰ علیہما السلام پر ان کا ایمان کافی اور معتبر نہیں، جب تک آنحضرتؐ پر ایمان نہ لائیں، اس لئے وہ الذین امنوا کہلانے کے مستحق نہیں، مگر یہاں اس عام عادت کے خلاف یہ لفظ نصاریٰ کے لئے بولا گیا، شاید اس میں حکمت یہ ہو کہ آگے ان کو حکم کیا گیا ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام پر صحیح ایمان لانے کا تقاضا یہ ہے کہ خاتم الانبیائؐ پر بھی ایمان لاؤ اور جب وہ ایسا کرلیں تو الذین امنوا کے خطاب کے مستحق ہوگئے۔
آگے اس تکمیل ایمان پر ان سے یہ وعدہ کیا گیا ہے کہ ان کو دوہرا اجر و ثواب ملے گا، ایک پہلے نبی حضرت موسیٰ یا عیسیٰ علیہما السلام پر ایمان لانے اور ان کی شریعت پر عمل کرنے کا اور دوسرا خاتم الانبیائؐ پر ایمان لانے کا اور آپؐ کی شریعت پر عمل کرنے کا، اس میں اشارہ اس طرف ہے کہ اگر یہود و نصاریٰ آنحضرتؐ پر ایمان نہ لانے کے وقت تک کافر تھے اور کافر کی کوئی عبادت مقبول نہیں ہوتی، اس کا مقتضا یہ تھا کہ پچھلی شریعت پر جو عمل کیا وہ سب اکارت ہو گیا، مگر اس آیت نے یہ بتلا دیا کہ اہل کتاب کافر جب مسلمان ہو جائے تو زمانہ کفر کے کئے ہوئے نیک اعمال بھی پھر اس کے بحال کر دیئے جاتے ہیں، اس لئے دوہرا اجر ہو جاتا ہے۔
لِّئَلَّا یَعلَمَ … اس میں لا زائدہ ہے، معنی لیعلم اہل الکتب کے ہیں اور مطلب آیت کا یہ ہے کہ مذکور الصدر احکام اس لئے بیان کئے گئے تاکہ اہل کتاب سمجھ لیں کہ وہ اپنی موجودہ حالت میں کہ صرف حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر تو ایمان ہے، رسول اقدسؐ پر نہیں، اس حالت میں وہ خدا کے کسی فضل کے مستحق نہیں، جب تک حضرت خاتم الانبیائؐ پر ایمان نہ لے آئیں۔
سورۃ الحدید مکمل ہوگئی۔ (جاری ہے)

Comments (0)
Add Comment