تابعین کے ایمان افروزواقعات

قسط نمبر51
حضرت محمد بن سیرینؒ نے ستتر (77) سال عمر پائی، جب موت کا وقت آیا تو ان کے کندھوں پر دنیا کا بوجھ بہت کم تھا اور سفر آخرت کا سامان بہت زیادہ تھا۔ اس دور کی ایک عبادت گزار خاتون حفصہ بنت راشدؒ بیان کرتی ہیں:
مروان محملی ہمارا پڑوسی تھا اور وہ بہت زیادہ گناہوں سے بچنے والا اور عبادت گزار تھا، جب وہ فوت ہوا تو کچھ دن بعد میں نے اسے خواب میں دیکھا اور اس سے پوچھا کہ تیرے رب نے تیرے ساتھ کیا سلوک کیا؟
اس نے کہا: خدا نے مجھے جنت میں داخل کردیا۔ میں نے پوچھا: پھر کیا ہوا؟
اس نے کہا پھر مجھے داہنے ہاتھ والوں (کام یاب لوگوں) کی طرف بھیج دیا گیا۔
میں نے پوچھا پھر کیا ہوا؟ اس نے کہا: پھر مجھے رب کے مقرب بندوں میں بھیج دیا گیا۔ میں نے پوچھا: آپ نے وہاں مقربین کی جماعت میں کس کس کو دیکھا؟ اس نے کہا: حسن بصریؒ اور محمد بن سیرینؒ کو۔
حضرت ربیعہ رائیؒ
’’میں نے ربیعہؒ سے بڑھ کر سنت کا محافظ کوئی نہیں دیکھا‘‘ (ابن ماجشون)
ہم آپ کو تاریخ کے ذریعے بہت پیچھے زمانے کی طرف لے جاتے ہیں۔ آیئے! آج ہم آپ کو اکیاون ہجری کے حالات سنائیں، یعنی نبی اکرمؐ کے دنیا سے پردہ فرما جانے کے 40 سال بعد کے حالات۔ (اس وقت اسلام ایشیا تک پہنچ چکا تھا، صحابہ کرامؓ دعوت کا پرچم لیے ہوئے انسانوں کو انسانوں کی غلامی سے نجات دلانے کے لیے اور ایک خدا وحدہ لا شریک لہ کی عبادت پر قائم کرنے کے لیے مشرق سے مغرب کی طرف ایک ہی فکر میں آگے بڑھتے جا رہے کہ خدا تعالیٰ انسانوں کو ہدایت دے دے، جہنم کی آگ سے بچالے اور ہمیشہ ہمیشہ کی جنت عطا فرما دے اور جو پیغام پھیلانے کی ذمہّ داری حضور اکرمؐ نے ہر مؤمن مرد و عورت کو عطا فرمائی، اس پیغام کو لے کر ساری دنیا میں پھرنے والے بن جائیں)
اس جماعت میں خراسان کے گورنر، سجستان کے فاتح، ایک کامیاب فوجی جرنیل جلیل القدر صحابی حضرت ربیع بن زیاد حارثیؓ خدا کی راہ میں جہاد کرنے والی جماعت کی قیادت کرتے ہوئے بڑی شان سے جا رہے ہیں اور ان کے ساتھ ان کا بہادر غلام فروخ بھی ہے۔
سجستان اور اس کے قریب کے علاقوں کو فتح کرنے کے بعد انہوں نے یہ پکا ارادہ فرما لیا، کہ اب اپنی زندگی کا خاتمہ دریائے سیحون عبور کرکے ماوَرائُ النہر کی بلند چوٹیوں پر توحید کا پرچم لہرا کر کریں گے (اور ان لوگوں کو بھی اسلام کی دعوت دیں گے، اگر انہوں نے قبول نہ کی تو پھر وہ جزیہ (ٹیکس) ادا کریں اور ہمیں آگے جانے دیں، تاکہ ہم دوسرے لوگوں کو اسلام کی دعوت دیں اور اگر یہ قبول نہ کریں تو پھر جنگ کے لیے تیار ہو جائیں۔
اس عظیم الشان جہاد کے لیے حضرت ربیع بن زیادؓ نے بھرپور تیاری کی اور جنگی ساز و سامان سے لشکر کو تیار کیا، دشمن کو لڑائی کے وقت اور جگہ سے بھی آگاہ کردیا۔ جب جنگ شروع ہوئی تو حضرت ربیعؓ اور ان کے لشکر کے بہادر جوانوں نے ایسے کارنامے سرانجام دیئے، جن کی تعریف تاریخ کی کتابوں میں ہمیشہ بہترین انداز میں ثبت ہوتی رہے گی۔
ان کے غلام فروخ نے میدان جنگ میں زبردست بہادری دکھائی اور دشمن پر لگاتار حملوں میں ایسے کارنامے دکھائے، کہ حضرت ربیعؓ یہ منظر دیکھ کر حیران رہ گئے، ان کے دل میں اس کی بہادرانہ عظمت کی بہت زیادہ قدر پیدا ہوئی اور انہیں پہلی مرتبہ ان کی جرأت، شجاعت، بے خوفی اور جنگی مہارت کا اندازہ ہوا۔ اس لڑائی میں مسلمانوں کو عظیم فتح حاصل ہوئی، دشمن کے قدم اکھڑ گئے، اس کی صفوں کو مسلمانوں نے بکھیر کر رکھ دیا۔ پھر لشکرِ اسلام نے اس دریا کو عبور کیا جو سرزمین ترکی کی طرف آگے بڑھنے میں رکاوٹ بنا ہوا تھا اور اسے چین کی طرف رخ کرنے سے روکے ہوئے تھا۔ (جاری ہے)

Comments (0)
Add Comment