تثلیث سے تو حید تک

ساتویں قسط
میں مسلمان کیوں ہوئی؟
یہ بات مجھ سے کئی لوگوں نے پوچھی ہے اور میں کئی بار جواب دے چکی ہوں، اس کے باوجود میں سمجھتی ہوں کہ مجھے اس سوال کا جواب بڑے سکون اور اطمینان سے دینا چاہئے۔ میرے گھریلو حالات، امریکہ میں حبشیوں کی مجموعی حالت سے زیادہ میری معذوری اور اپاہج پن نے مجھے اسلام کی طرف راغب کیا۔ اس کی تفصیل بھی سن لیں! ایک اخبار میں کام کرنے کی وجہ سے میں ہر روز میلکم ایکس اور مسلمان ہونے والے حبشیوں کی اصلاحی تحریک کے بارے میں پڑھتی تھی، چونکہ پولیو کی وجہ سے میں معذور اور اپاہج ہو چکی تھی اور سوائے مطالعہ کے میرا اور کوئی شغل نہ تھا، اس لئے مجھ میں غور و فکر کی عادت بہت بڑھ گئی تھی، جب میں پڑھتی کہ میلکم ایکس اور اس کے رضا کار ساتھی لوگوں سے منشیات کی عادت چھڑانے میں کامیاب ہو رہے ہیں تو مجھے بڑی حیرت ہوتی۔ میں سمجھتی یہ صرف ایک خبر ہے جس میں صداقت نہیں ہے، لیکن پھر میں سوچتی کہ یہ خبر کس طرح جھوٹی ہو سکتی ہے اور کس حد تک جھوٹی ہو سکتی ہے؟
میرے پاس میرے اس سوال کا کوئی جواب نہ تھا، مگر اس زمانے میں، میں نے یہ فیصلہ کر لیا کہ مجھے اسلام کے بارے میں کچھ پڑھنا چاہئے۔ میں نے کچھ کتابیں حاصل کیں اور پڑھنے لگی۔ اسلام کے بارے میں ان کتابوں نے مجھے خاصا متاثر کیا، جب میں نے یہ کتابیں پڑھ لیں تو میرے دل میں قرآن پڑھنے کا خیال پیدا ہوا اور میں نے انگریزی میں ترجمہ قرآن کا ایک نسخہ حاصل کرلیا اور قرآن پاک کے اس ترجمہ نے مجھے عجیب طرح کا روحانی سرور بخشا، جسے میں بیان نہیں کر سکتی۔
آج میں سمجھتی ہوں کہ اگر کوئی بھی شخص دلچسپی، انہماک اور لگن سے قرآن کا مطالعہ کرے تو وہ اس مقدس کتاب کی حقانیت سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔
قرآن پاک کے مطالعے نے مجھے کئی دن بے چین رکھا۔ میرے دل میں ایک عجیب طرح کا جذباتی مدوجزر پیدا ہوگیا تھا، جی چاہتا کہ اب میلکم ایکس سے ملوں، مگر وہ اس شہر سے بہت دور تھے۔ میں نے اخبار کے ذریعے یہ پتہ چلایا کہ یہاں ہمارے شہر میں کون سا ایسا شخس ہے، جو مسلمانوں کو رہنمائی کرتا ہے۔ اس کا پتہ مجھے جلدی ہی مل گیا۔ میں نے اس شخص، محمد یوسف کو فون کیا اور اس سے ملاقات کے لئے وقت مانگا۔ دوسری طرف سے مجھے بڑی ہمدرد اور نرم آواز سنائی دی۔ محمد یوسف نے مجھے کہا کہ میں جس وقت چاہوں، اسے مل سکتی ہوں۔ میں نے انہیں بتایا کہ میں بعد دوپہر ان سے ملوں گی۔ وقت طے ہو جانے کے بعد میں نے اطمینان کا سانس لیا۔
جب میں اگلے دن محمد یوسف سے ملنے گئی تو وہ مجھے دیکھ کر کچھ پریشان ہوگیا۔ میں نے ان کی پریشانی کے سبب کو بھانپ لیا۔ وہ کسی صحت مند اور توانا لڑکی سے ملنے کی توقع رکھتے تھے۔ جب انہیں وہیل چیئر میں بیٹھی حرکت سے معذور لڑکی دکھائی دی تو وہ کچھ پریشان سے ہوگئے، مگر میری مسکراہٹ اور خوشدلی نے ان کی پریشانی کو جلد ہی ختم کردیا۔
محمد یوسف میرے ہی طرح حبشی تھے۔ کبھی ان کا نام جانی بلیگڈن تھا، اب وہ محمد یوسف جیسے خوبصورت نام کے مالک تھے، وہ اس شہر کے مسلمانوں کے سربراہ یا امام تھے، وہی مسجد میں نماز پڑھاتے اور وہی قرآنی تعلیمات کا درس دیتے تھے، وہ ہمدردی بھرے لہجے میں مجھ سے میرے بارے میں گفتگو کرتے رہے، باتوں باتوں میں بڑے غیر محسوس انداز میں انہوں نے مجھ سے میرے اور میرے کنبے کے بارے میں سب سے معلومات حاصل کرلیں، میں نے ان سے پوچھا کہ وہ مسلمان کیوں ہوئے تھے؟
محمد یوسف مسکرا دیئے، پھر انہوں نے دھیمے سے بڑے میٹھے لہجے میں جواب دیا ’’میں اس لئے مسلمان ہوا کہ خدا تعالیٰ کی یہ مرضی تھی کہ وہ مجھے سیدھا راستہ دکھائے۔‘‘ ان کا وہ جواب میں آج تک نہیں بھولی ہوں اور زندگی بھر نہ بھول سکون گی، کیونکہ میں بھی یہی سمجھتی ہوں کہ خدا تعالیٰ جس انسان کو سیدھے راستے پر لانا چاہتا ہے، اس کے دل میں اسلام کے لئے محبت پیدا کر دیتا ہے۔
محمد یوسف نے مجھے بتایا کہ وہ بھی حبشیوں کے غریب اور نادار علاقے میں پیدا ہوئے تھے، انہوں نے بچپن غربت اور افلاس میں گزارا، بڑے ہوئے تو ایک ایسے ہوٹل میں ملازم ہوگئے، جہاں انہیں برتن مانجھنے کے لئے رکھا گیا تھا، مگر ان سے ضروری کام اور بھی لیا جاتا تھا، انہیں کچھ پیکٹ دے دیئے جاتے کہ وہ انہیں کسی جگہ پہنچا آئیں، اس کام کے عوض انہیں انعام میں ایک آدھ ڈالر مل جایا کرتا تھا، ایک دن ان کے جی میں آئی کہ اس پیکٹ کو کھول کر دیکھنا چاہئے، جب انہوں نے کھول کر دیکھا تو اس میں سے انہیں حشیش ملی، انہوں نے یہ حشیش مہنگے داموں بیچ دی اور ہوٹل واپس نہ گئے، مگر ہوٹل کی انتظامیہ نے انہیں ڈھونڈ نکالا، پیکٹ مانگا اور جب پیکٹ نہ ملا تو ان کی خوب پٹائی کی، وہ کئی دنوں بستر سے نہ اٹھ سکے۔ اس واقعہ کے بعد وہ گناہوں کی دنیا میں پہنچ گئے، تیس برس کی عمر تک انہوں نے ہر برا کام کیا، وہ عورتوں کی دلالی کرتے، قحبہ خانوں کی نگرانی کا فرض انجام دیتے، ہیروئن اور دوسری منشیات کا خفیہ دھندہ کرتے کرتے خود بھی ان منشیات کے عادی ہوگئے، انہیں کئی بار سزا ہوچکی تھی، مگر وہ سزا کے خوف سے بے نیاز ہوچکے تھے۔ ایک بار جب وہ جیل میں تھے تو کچھ لوگ ان سے ملنے آئے، یہ رضا کار مسلمان تھے جو قیدیوں میں اسلام کی تبلیغ کررہے تھے۔ ان کی تبلیغ سے محمد یوسف بے حد متاثر ہوئے اور ان کا جی چاہنے لگا کہ وہ باعزت اور بے فکر زندگی بسر کریں۔ جب وہ جیل سے رہا ہوئے تو خاصے بدل چکے تھے، مگر انہیں زندہ رہنے کے لئے کچھ نہ کچھ کرنا تھا، وہ کچھ بھی نہیں جانتے تھے، اس لئے انہوں نے یہی سوچا کہ اب پھر انہیں جرم کی زندگی بسر کر کے ہی اپنا پیٹ پالنا پڑے گا، وہی رضا کار، جنہوں نے جیل میں ان کے خیالات کو تبدیل کرنے کی کوشش کی تھی، وہ ان سے ملے، انہوں نے ان کے لئے روزگار کا بندوبست کیا، کچھ نقد رقم دی، تاکہ جب تک انہیں تنخواہ نہیں ملتی، وہ اس رقم سے گزر اوقات کریں، وہ انہیں اپنے ساتھ رکھتے، یوں محمد یوسف جو کبھی جانی بلیگڈن تھے، مسلمان ہو گئے۔ (جاری ہے)

Comments (0)
Add Comment