نجد جزیرہ عرب کے صوبوں میں سے ایک صوبہ ہے، جس کا رقبہ بہت وسیع ہے، نجد کے ایک حصے یمامہ میں سے کذاب مسیلمہ نے نبوت کا دعویٰ کیا۔ 9ھ میں سترہ رکنی وفد جس میں مسیلمہ بھی شامل تھا، حضور اکرمؐکی بارگاہ میں حاضر ہوا۔ مسیلمہ کو اس کے قبیلہ حنیفہ کے لوگ ایک چادر میں چھپائے ہوئے تھے تاکہ وہ عام لوگوں کی نگاہوں سے مخفی رہے۔ آپؐ اس وقت اپنے صحابہ کرامؓ کے ساتھ تشریف فرما تھے۔ حضور اکرمؐ کے دست مبارک میں کھجور کی ایک ٹوٹی ہوئی شاخ کی چھڑی تھی۔ مسیلمہ نے حضورؐ سے کہا: ’’آپ مجھے اپنی نبوت میں شریک کرلیجئے۔ میرا سارا قبیلہ آپ کے پرچم تلے جمع ہو جائے گا۔ اس سے آپ کی طاقت میں اضافہ ہو جائے گا۔‘‘
آپؐ نے فرمایا: ’’مسیلمہ نبوت تو بہت بڑی چیز ہے، تم اگر مجھ سے یہ پرانی اور بوسیدہ چھڑی بھی مانگو تو میں تمہیں ہرگز نہیں دوں گا۔‘‘ جب یہ وفد اپنے وطن پہنچا تو اس نے مکرو فریب سے کام لیتے ہوئے اپنے لوگوں میں یہ مشہور کردیا کہ حضور اکرمؐ نے مجھے اپنی نبوت میں شریک کر لیا ہے اور وفد کے دیگر ارکان کو جھوٹے گواہ کے طور پر پیش کر دیا۔
صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرمؐ نے فرمایا: میں سو رہا تھا، میرے پاس زمین کے خزانے لائے گئے اور میرے ہاتھوں میں سونے کے کڑے پہنا دیئے گئے۔ یہ چیز مجھ پر بڑی گراں گزری۔ تو میری طرف وحی کی گئی کہ ان دونوں کڑوں کو پھونک مار کر اڑا دو۔ میں نے دونوں کو پھونک ماری، دونوں کڑے غائب ہوگئے۔ میں نے اس خواب کی یہ تعبیر لی ہے کہ دو جھوٹے نبی ظاہر ہوں گے اور میں ان دونوں کے درمیان ہوں گا۔ ان دونوں جھوٹے نبیوں سے مراد اسود عنسی اور مسیلمہ ہیں۔ اسود صنعاء کا اور مسیلمہ یمامہ کا باشندہ ہے۔
مسیلمہ نے اپنی قوم کو اپنے جھنڈے تلے جمع کرنے کیلئے اور اپنی نبوت کا گرویدہ بنانے کیلئے انہیں کئی پابندیوں سے آزاد کردیا تاکہ وہ اسلام کو چھوڑ کر اس کے حامی بن جائیں۔ اس سے نماز کی فرضیت ساقط کردی۔ شراب اور زنا کو حلال کردیا۔ اسود عنسی نے اپنی نبوت کا دعویٰ یمن کے شہر صنعاء سے کیا۔ اس نے جب نبوت کا دعویٰ کیا تو ابو مسلم خولانی ایک صحابی کو اپنے پاس طلب کیا۔ ان سے کہا کہ تم اس بات کی گواہی دو کہ میں خدا کا رسول ہوں۔ انہوں نے ٹالتے ہوئے کہا کہ میں سنتا نہیں ہوں۔ دوسرا سوال اس نے ابو مسلم خولانیؒ سے یہ کیا۔ کیا تم یہ گواہی دیتے ہو کہ محمدؐ خدا کے رسول ہیں۔ انہوں نے فوراً کہا ’’ہاں میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد مصطفیؐ کے رسول ہیں۔‘‘ اس نے یکے بعد دیگرے تین بار یہ دونوں سوال دہرائے۔ آپ نے ہر بار اس کو وہی پہلا جواب دیا۔ اس نے اپنے عقیدت مندوں کو ایندھن جمع کرکے آگ بھڑکانے کا حکم دیا۔ جب آگ کے شعلے آسمان سے باتیں کرنے لگے تو اس نے حکم دیا کہ ابو مسلم خولانیؒ کو رسی میں باندھ کر اس بھڑکتی ہوئی آگ میں پھینک دیا جائے۔ اس کے حکم کی تعمیل کی گئی۔ لیکن لوگ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ ان لپکتے ہوئے شعلوں نے ان کا بال بھی بیکا نہ کیا۔ جو لباس انہوں نے پہنا ہوا تھا، وہ بھی صحیح سلامت تھا۔ اس کا رنگ بھی تبدیل نہ ہوا۔ اسود عنسی کے مشیروں نے اسے ابو مسلم خولانیؒ کو فوراً نکال دینے کا مشورہ دیا۔ چنانچہ ان کو وہاں سے نکال دیا گیا۔ جب یہ واقعہ رونما ہوا حضور اکرمؐ کا وصال ہو چکا تھا اور حضرت ابوبکر صدیقؓ خلیفہ بن چکے تھے۔ ابو مسلم خولانیؒ مدینہ تشریف لائے۔ مسجد نبویؐ کے دروازے پر اپنے اونٹ کو بٹھایا اور اندر جاکر نماز کی نیت باندھ لی۔ حضرت عمر فاروقؓ نے انہیں دیکھا۔ جب ابو مسلمؒ نماز ادا کر چکے تو حضرت عمرؓ نے پوچھا آپ کون ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ میں اہل یمن سے ہوں۔ حضرت عمرؓ نے ان سے دریافت کیا۔ ہمارے اس بھائی کا کیا حال ہے جس کو اس جھوٹے نبی نے آگ کے الائو میں پھینکا تھا۔ انہوں نے جواب دیا: ’’میں وہی ہوں۔‘‘ حضرت عمرؓ نے دریافت کیا ’’کیا واقعی تم وہی شخص ہو۔‘‘ انہوں نے جواب دیا ’’بخدا میں وہی ہوں‘‘ حضرت عمرؓ نے انہیں سینے سے لگا لیا۔ آپؓ کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ انہیں اپنے ہمراہ لے کر حضرت ابو بکر صدیقؓ کے پاس بٹھا دیا، پھر کہا خدا کا شکر ہے، جس نے مجھے مرنے سے پہلے اس شخص کی زیارت کا شرف بخشا ہے، جس کو حضرت ابراہیمؑ کی طرح آگ میں ڈالا گیا، لیکن آگ نے اس کا بال بھی بیکا نہ کیا۔‘‘
مسیلمہ کذاب یمامہ کے میدان جنگ میں حضرت وحشیؓ کے ہاتھوں جہنم رسید ہوا۔ وحشیؓ کہتے ہیں کہ میری یہ آرزو تھی کہ حضرت حمزہؓ کو شہید کرنے کا جرم مجھ سے سرزد ہوا تھا، اس کا ازالہ کرنے کی توفیق خدا مجھے دے کہ میں اسلام کے کسی بڑے دشمن کو موت کے گھاٹ اتاروں۔ میں یمامہ کی جنگ میں شریک تھا۔ میں نے مسیلمہ کذاب کو ایک مست اونٹ کی طرح بال بکھیرے ہوئے کھڑا دیکھا۔ میں نے تاک کر اس کے سینے پر ایک نیزہ پھینکا جو اس کے سینے کو چیرتا ہوا پشت کے پار نکل گیا۔ اس طرح رب تعالیٰ نے میری یہ آرزو پوری کر دی۔ پھر ایک انصاری مسلمان بھائی نے اپنی تلوار کا وار کرکے اس کا سر قلم کر دیا۔