سرفروش

قسط نمبر244
عباس ثاقب
یہ ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جس نے نوجوانی کے امنگوں بھرے دور میں اپنی جان خطرے میں ڈال دی۔ صرف اس لئے کہ وطن عزیز پاکستان کو دشمنوں سے محفوظ رکھا جا سکے۔ جمال صاحب کراچی کے قدیم رہائشی ہیں اور ان دنوں گمنامی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ عمر کے آخری حصے میں بصد اصرار اس بات پر آمادہ ہوئے کہ اپنی زندگی کے تہلکہ خیز گوشوں سے پردہ اٹھائیں۔ ان کا اصل نام کچھ اور ہے۔ بعض نا گزیر اسباب کی بنا پر انہیں ’’جمال‘‘ کا فرضی نام دیا گیا ہے۔ اس کہانی کو ڈرامائی شکل دینے کیلئے کچھ زیادہ محنت نہیں کرنی پڑی۔ کیونکہ یہ حقیقی ایڈوینچر کسی سنسنی خیز ناول سے زیادہ دلچسپ ہے۔ جمال صاحب کی کہانی ان لوگوں کیلئے دعوتِ فکر ہے، جنہیں یہ ملک بغیر کسی جد و جہد اور محنت کے ملا اور انہوں نے اس کی قدر کرنے کے بجائے اسی سے شکایات شروع کر دیں۔ امید ہے کہ قسط وار پیش کی جانے والی یہ کہانی ’’امت‘‘ کے خوش نظر قارئین کی پذیرائی حاصل کرے گی۔ (ادارہ)
گردوارہ اتنا بڑا اور وہاں آنے والے یاتریوں کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ وہاں آنے والے ہر شخص کی نگرانی ناممکن نہیں تو بہت مشکل ضرور ہے‘‘۔
میں نے کچھ سوچ کر تشویش بھرے لہجے میں کہا۔ ’’وہ تو ٹھیک ہے۔ لیکن ذاکر دو تین دن میں کیسے وہاں جا سکتا ہے؟ وہ تو کشمیر گیا ہوا ہے۔ امکان ہے کہ وہ ایک ہفتے کے اندر پنجاب واپس آجائے گا، لیکن یہ بھی کوئی حتمی بات نہیں ہے‘‘۔
یہ بات سن کر امر دیپ اور اس کے چھوٹے بھائی، دونوں کے چہروں پر مایوسی چھا گئی۔ کچھ توقف کے بعد میں نے کہا۔ ’’یہ سنگین مسئلہ ہے بھائی۔ کہیں ڈاکٹر جگجیت اپنا ارادہ تبدیل نہ کرلیں۔ ہو سکتا ہے وہ اپنے کسی ساتھی سے مشورہ کریں اور وہ انہیں احتیاط کے تقاضوں کے تحت ایسا کوئی خطرناک قدم اٹھانے سے منع کر دے‘‘۔
امر دیپ اور بشن دیپ نے بیک وقت سر ہلا کر میری تائید کی۔ امر دیپ نے کہا۔ ’’بالکل ہو سکتا ہے بھائی۔ لیکن مجبوری ہے۔ اس کشمیری لڑاکے کی واپسی کا انتظار کرنے کے علاوہ ہمارے پاس کوئی راستہ بھی تو نہیں ہے‘‘۔
میں نے کچھ دیر سوچنے کے بعد کہا۔ ’’میرے ذہن میں ایک ترکیب ہے، جس سے مسئلہ کم ازکم وقتی طور پر حل ہوجائے گا۔ آپ لوگ مشورہ دیں کہ یہ ترکیب قابلِ عمل ہے یا نہیں؟‘‘۔
امر دیپ اور بش دیپ دونوں نے اشتیاق بھری نظروں سے مجھے دیکھا۔ میں نے کہا۔ ’’اگر میں ذاکر بن کر ڈاکٹر نجیب سے ملاقات کروں تو کیسا رہے گا؟‘‘۔
وہ دونوں چونکے۔ امر دیپ نے پوچھا۔ ’’یہ کیسے ہوسکتا ہے؟‘‘۔
میں نے کہا۔ ’’کیوں نہیں ہوسکتا؟ ڈاکٹر چوہان مجھے شکل سے پہچانتا ہے اور نہ ذاکر کو۔ میں صاف لہجے میں اردو بھی بول سکتا ہوں۔ میں کشمیر میں اپنے علاقے کے بارے میں بہت تفصیل سے بات نہیں کروں گا‘‘۔
بشن دیپ نے کہا۔ ’’وہ تو ٹھیک ہے، لیکن ہم ڈاکٹر چوہان سے دھوکا کیسے کر سکتے ہیں؟ یہ بھید کھل گیا تو ہم ان کا کیسے سامنا کریں گے؟ وہ ہم پر بھروسا کر کے اتنا بڑا خطرہ مول لے رہے ہیں!‘‘۔
امر دیپ کے چہرے کے تاثرات بتا رہے تھے کہ وہ بھی اپنے بھائی کے خیالات سے متفق ہے۔ میں نے نرم لہجے میں انہیں مخاطب کیا۔ ’’دیکھو بھائی، دھوکا تو اس وقت ہوگا جب ہم انہیں یا خالصتان تحریک کو نقصان پہنچانے کی نیت سے یہ سب کچھ کریں گے۔ ہم تو دونوں فریقوں کی بھلائی کے لیے یہ سب کر رہے ہیں اور واہگرو نے چاہا تو ہماری کوشش بہت فائدہ مند ثابت ہوگی۔ اگر آپ دونوں کو بھی مجھ پر اعتبار نہیں تو پھر بات دوسری ہے۔ ایسی صورت میں معاملہ یہیں ختم کر دینا بہتر ہوگا۔ ہو سکتا ہے میں خالصتان تحریک کو نقصان پہنچانے کے لیے ذاکر کے بھیس میں نہرو سرکار کے کسی جاسوس کو ڈاکٹر چوہان سے ملوانے کی کوشش کر رہا ہوں‘‘۔
میری بات سن کر وہ دونوں شرمندہ سے ہوگئے۔ کچھ لمحوں تک خاموش رہنے کے بعد امر دیپ نے کہا۔ ’’ایسا نہ کہو بہادر بھائی۔ ہمیں تم پر اتنا ہی بھروسا ہے جتنا ہم خود پر کرتے ہیں۔ بس ڈاکٹر چوہان سے جھوٹ بولنے کا خیال اچھا نہیں لگ رہا‘‘۔
بشن دیپ نے اپنے بھائی کا موقف مزید آگے بڑھایا۔ ’’یہ بھی تو سوچو بھائی کہ تم ذاکر بن کر ڈاکٹر چوہان سے جاکر مل بھی لو تو اس کا کیا فائدہ نکلے گا؟ اصل معاملہ توآخر ذاکر اور ڈاکٹر چوہان کے درمیان ہی آگے بڑھے گا ناں؟ تم ان کے ساتھیوں کو کشمیر تو نہیں لے جا سکتے ناں؟‘‘۔
میں نے ان کی باتوں پر ناراض ہونے کے بجائے بدستور نرم لہجے میں کہا۔ ’’آپ لوگوں کا موقف بالکل ٹھیک ہے، لیکن اس مسئلے کا حل بھی موجود ہے۔ میں ذاکر بن کر ڈاکٹر چوہان سے ملوں گا اور میری کوشش ہوگی کہ بہترین انداز میں معاملہ طے کرلوں۔ اس کے بعد جب ذاکر کشمیر سے واپس آجائے تو میں اسے بھی لے جاکر ایک نئے نام کے ساتھ اپنے ساتھی کی حیثیت سے ڈاکٹر چوہان سے ملوادوں گا۔ اس کے بعد میں پیچھے ہٹ جاؤں گا اور وہ دونوں براہ راست معاملات آگے بڑھاتے رہیں گے۔ امید ہے اب آپ میرا مطلب سمجھ گئے ہوں گے‘‘۔
اپنی بات مکمل کرکے میں نے سوالیہ نظروں سے ان دونوں کی طرف دیکھا۔ انہیں بدستور شش و پنج میں گرفتار دیکھ کر میں نے مزید وضاحت کی۔ ’’دیکھو بھائی، میرے ڈاکٹر چوہان سے مل کر معاملات کو طے کرنے کا ایک فائدہ اور بھی ہے۔ ذاکر بہت بہادر اور جی دار لڑاکا ضرور ہے، لیکن ضروری نہیں کہ وہ بات چیت کر کے معاہدے طے کرنے میں بھی مہارت رکھتا ہو۔ یہ بھی ممکن ہے کہ وہ اس اتحاد کے فوائد کو بھی اتنی گہرائی کے ساتھ نہ سمجھ سکے۔ ابتدائی سمجھوتا ہونے کے بعد ہم اسے تفصیل سے معاملہ سمجھا کر ڈاکٹر چوہان سے ملوائیں تو بات بگڑنے کا خطرہ بہت کم ہوگا‘‘۔
امر دیپ نے کہا۔ ’’چلو، تم یہ طریقہ بہتر سمجھتے ہو تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے۔ اور یہ بات بھی ٹھیک ہے کہ اتنے بڑے مقصد کے لیے اتنی معمولی غلط بیانی کوئی بڑی بات نہیں۔ ہم لوگوں کی نیت میں تو کوئی فتور نہیں ہے ناں!‘‘۔
بادل نخواستہ یا بخوشی، بشن دیپ بھی شاید اپنے بھائی کی طرح قائل ہوگیا ہوگا، کیونکہ اس نے مزید اعتراض یا احتجاج نہیں کیا۔ میں نے انہیں مزید اطمینان دلانے کے لیے کہا۔ ’’آپ دونوں بے فکر ہوجائیں۔ معاملے کو سب کے لیے بہترین نتائج کے ساتھ انجام تک پہنچانا میری ذمہ داری ہے۔ اگر آپ لوگوں کے لیے کوئی مسئلہ نہ ہو تو کل یا زیادہ سے زیادہ پرسوں مجھے امرتسر کے گولڈن ٹیمپل لے جاکر ڈاکٹر چوہان سے ملاقات کرا دیں‘‘۔
امر دیپ نے کہا۔ ’’ٹھیک ہے، میرے پاس ڈاکٹر چوہان کا ٹیلی فون نمبر موجود ہے۔ میں صبح ہی ان سے بات کرتا ہوں‘‘۔
میں نے اپنے دل میں ابھرتے خوشی کے جذبات دباتے ہوئے سادگی سے کہا۔ ’’ٹھیک ہے۔ اب آپ لوگ جاکر آرام کریں۔ بہت طویل دو طرفہ سفر کر کے آئے ہیں۔ واہگرو نے چاہا تو صبح بات ہوگی‘‘۔
انہیں رخصت کر کے میں ایک بار پھر لحاف میں لپٹ کر معاملے پر غور کرنے لگا۔ امر دیپ اور بشن دیپ کی باتوں میں کافی دم ہے۔ لیکن وہ دونوں بہرحال میری حقیقت سے تو واقف نہیں ہیں۔ انہیں کیا پتا کہ میں ظہیر اور اس کے مشن کی کامیابی کے لیے کس حد تک جاسکتا ہوں۔ اگر میری یہ کاوش کامیاب ہوگئی تو شاید میں اس کی بے لوث محبت اور مجھ پر کیے ہوئے احسانوں کا بدلہ کسی حد تک اتار سکوں۔ بس یہ بات یقینی بنانی ہوگی کہ ڈاکٹر چوہان کو میر ی اصلیت کے حوالے سے کوئی شک نہ ہونے پائے۔ امر دیپ اور بشن دیپ تو مجھ پر یقین رکھتے ہیں۔ لیکن اگر کسی بھی مرحلے پر ڈاکٹر چوہان پر یہ بھید کھل گیا کہ میں کشمیری مجاہد نہیں ہوں تو اسے اپنی نیک نیتی کا یقین دلانا میرے لیے ناممکن ہو جائے گا‘‘۔ (جاری ہے)

Comments (0)
Add Comment