نقاد کا نیا پرچہ حسن و عشق کے تخیلی پیکروں کا البم تھا

قسط نمبر 24
ترتیب و پیشکش
ڈاکٹر فرمان فتحپوری
قمر زمانی بیگم کون ہیں؟ کیا ہیں؟ اور ان کی اہمیت کیا ہے؟ ان سوالوں کے مفصل جوابات آپ کو اس تحریر کے مطالعہ سے خود معلوم ہوجائیں گے۔ ابتداً اتنا ضرور کہنا ہے کہ اِن کے اور اُن کے معاشقے کی جو داستان یہاں بیان کی جارہی ہے۔ وہ فرضی نہیں حقیقی ہے۔ من گھڑت نہیں سچا واقعہ ہے۔ محض ایک رنگین و رومان پرور کہانی نہیں، ادبی تاریخ کا ایک دلکش باب ہے۔ معمولی اشخاص کی زندگی کی تفصیل نہیں، علم و ادب کی غیر معمولی شخصیتوں کا مرقع ہے۔ سنی سنائی باتوں کا مصنوعی مجموعہ نہیں، خطوط کی صورت میں ایک خاص عہد کی ادبی دستاویز ہے۔ جس کے منتخب حصے قارئین امت کی نذر ہیں۔
درخت نے بلبل سے کہا۔ ’’اگر تو سرخ گلاب چاہتی ہے، تو تجھے نو ماہ میں ایک پھول اپنی موسیقی سے تیار کرنا چاہئے اور اسے اپنے خون دل سے رنگین۔ تجھے چاہیے کہ تو مجھے گا کر سنا۔ مگر وہ نغمہ تیرے سینہ سے پیدا ہو۔ اس حال میں کہ وہ ایک کانٹے سے پیوستہ ہو۔ تمام شب تو مجھے گانا سناتی رہ اور کانٹا تیرے دل میں چھبتا رہے اور تیرا خون حیات میری رگوں میں بہنے لگے اور میرا ہو جائے‘‘۔
’’ایک پھول کی قیمت ایک پوری زندگی، بڑی قیمت ہے‘‘۔ بلبل نے کہا۔ ’’اور جان سب کو عزیز ہے۔ دشت زمردیں میں بیٹھ کر آفتاب کو سنہری رتھ میں اور ماہتاب کو موتیوں کی گاڑی میں نکلتے دیکھنا نہایت خوشگوار نظارہ ہے۔ شیریں ہے پھولوں کی نگہت اور لطیف ہے ان کی رنگینی، جو کسی وادی میں پوشیدہ شگفتہ ہوں، یا جو پہاڑوں پر کھل کر انہیں گلستان زار بنا دیں۔ تاہم محبت زندگی سے بھی بہتر شے ہے اور ایک پرندے کے دل کی ایک انسانی قلب کے مقابلہ میں کیا حقیقت ہے‘‘۔
چنانچہ بلبل نے اپنے بھورے پروں کو پرواز کے لئے ہوا میں پھیلا دیا اور فضا میں صعود کر گئی۔ وہ باغ پر سے سایہ کی طرح گزر گئی اور سایہ ہی کی طرح وہ کنج کو عبور کرگئی۔
نوجوان طالب علم ابھی تک سبزہ پر پڑا ہوا تھا۔ جہاں وہ اس کو چھوڑ گئی تھی اور ہنوز اس کی خوبصورت آنکھوں میں آنسو خشک نہ ہوئے تھے۔
’’خوش ہوجا‘‘۔ بلبل پکار اٹھی۔ ’’خوش ہوجا تجھے گلاب کا پھول مل جائے گا۔
میں اسے چاندنی میں اپنی موسیقی سے تیار کروں گا اور اپنے خون دل سے رنگیں۔ جو کچھ اس کے عوض میں مجھے کہنا ہے، وہ یہ ہے کہ کیا تم سچی محبت کرنے والے ہو۔ کیونکہ محبت فلسفہ سے عقلمند تر ہے، اگرچہ وہ بھی عقلمند ہے اور طاقت سے قوی تر ہے۔ اگرچہ وہ بھی قوی ہے شعلہ رنگ ہیں اس کے بازو اور رنگین ہے شعلہ کی طرح اس کا جسم، اس کے لب شیریں ہیں مانند عمل اور اس کا سانس خوشگوار مثال بخود‘‘۔
طالب علم نے سبزہ سے سر اٹھایا اور سنا، لیکن جو کچھ بلبل اس سے کہہ رہی تھی نہ سمجھا، کیونکہ وہ صرف وہ باتیں جانتا تھا جو کتابوں میں لکھی ہیں۔ لیکن شاہ بلوط کا درخت سمجھ گیا اور غمگین ہوا کہ کیونکہ وہ اس بلبل کو بہت چاہتا تھا، جس نے اپنا آشیانہ اس کی شاخوں میں بنالیا تھا۔
’’مجھے ایک نغمہ آخر میں سنا‘‘۔ اس درخت نے دبی آواز سے کہا۔ ’’میں تیرے چلے جانے کے بعد اپنی تنہائی سے نہایت متاثر ہوں گا‘‘۔
چنانچہ بلبل نے اس شاہ بلوط کے درخت کو اپنا نغمہ سنایا۔ اس کی آواز ایک ایسی موسیقی تھی، جو کسی ظرف سیمیں کے اندر پانی کے ہلکوروں سے پیدا ہو۔
جس وقت اس نے اپنا گانا ختم کیا، وہ طالب علم اٹھ بیٹھا اور ایک نوٹ بک اور پنسل اپنی جیب سے نکالی۔ ’’کیا وہ احساس بھی رکھتی ہے۔ مجھے اندیشہ ہے کہ نہیں۔ حقیقتاً وہ ایک صناع یا نقاص کی طرح ہے۔ وہ بغیر کسی خلوص کے صرف تضع ہے۔ وہ دوسروں کے لئے اپنے آپ کو قربان نہیں کرے گی۔ وہ صرف موسیقی کی دھن میں رہتی ہے اور ہر شخص جانتا ہے کہ صنعت خود غرض ہے۔ تاہم اعتراف کرنا چاہئیے کہ اس کی آواز میں بعض دلپذیر سر ہیں۔ کتنا قابل رحم دل ماجرا ہے کہ ان کے کچھ معنی نہیں اور کوئی عمل خوبی ان میں نہیں ہے۔ اور وہ اپنے کمرے کے اندر چلا گیا۔ بستر پر پڑگیا اور خیال معشوقی میں محو ہوگیا اور کچھ عرصہ کے بعد اسے نیند آگئی۔
اس وقت جبکہ چاندنی نے آسمان کو منور کیا، بلبل اس گلاب کے درخت کے پاس پہنچی اور اپنا سینہ خار میں پیوست کر دیا۔ تمام شب اپنے خار پیوستہ سینہ سے نغمہ سنجی کیا کی اور سرد و بلوریں مہتاب جھکا ہوا داد نغمہ سنجی دیتا رہا۔ بلبل تمام رات گایا کی اور کانٹا اس کے سینہ میں گہرا اترتا رہا اور اس کا خون حیات ایک جزو بلا مد ہوکر بہہ نکلا۔
اس نے (سب سے پہلے) ابتداً ایک لڑکے اور لڑکی کے دل میں پیدائش محبت کا گیت گایا۔ شجر کل کی سب سے بالائی شاخ میں ایک عجیب و غریب پھول نمودار ہوا اور تواتر نغمہ کے ساتھ ساتھ پنکھڑی پر پنکھڑی قائم ہوتی گئی۔ شروع میں وہ پھول زرد تھا، جس طرح کھردریا پرچھائی ہوتی ہے۔ زرد جیسے صبح کے بازو، جس طرح ایک آئینہ سیمیں میں انعکاس گل ہوتا ہے یا کسی چشمہ بلوریں میںگلاب سایہ فگن ہوتا ہے، اس طرح بالکل اسی طرح یہ گلاب بھی اپنی بالا ترین شاخ درخت میں پھول رہا تھا۔
لیکن وہ ’شجر گل‘ عندلیب سے مخاطب ہوا کہ اپنے سینہ کو کانٹے سے نزدیک تر کر دے۔ ’’پیوستہ تر کردے اے بلبل‘‘۔ درخت پکارا۔ ’’ورنہ طلوع صبح، تکمیل گل سے قبل ہوجائے گا‘‘۔
چنانچہ بلبل نے اپنے سینہ کو کانٹے کی طرف اور بڑھا دیا اور اس کا نغمہ بلند سے بلند تر ہوتا گیا کہ وہ اس وقت ایک نوجوان اور ایک دو شیزہ کے دل میں پیدائش محبت کا گیت گارہی تھی۔
گلابی رنگ کی ایک نازک سی جھلک اس پھول کی پنکھڑیوں میں آئی۔ ایک ایسی جھلک آئی جو نوشہ کے چہرے پر اس وقت پیدا ہوتی ہے جب وہ اول بار عروس کے لبوں کو بوسہ دے۔ لیکن ابھی تک کانٹا اس کے وسط دل میں نہیں پہنچا تھا۔ چنانچہ قلب گل بھی ہنوز سفید تھا۔ کیوں کہ صرف ایک بلبل کو خونِ دل ہی ایک پھول کے قلب کو رنگین بنا سکتا ہے۔
وہ ’’شجر گل‘‘ عندلیب سے مخاطب ہوا کہ اپنے سینہ کوکانٹے سے نزدیک تر کر دے، پیوستہ تر کردے اے بلبل‘‘۔ درخت پکارا۔ ’’ورنہ طلوع صبح تکمیل گل سے قبل ہوجائے‘‘۔
چنانچہ بلبل نے اپنے سینہ کو کانٹے کی طرف اور بڑھا دیا اور کانٹا اس کے دل میں بیٹھ گیا اور ایک بے رحم درد اس کی ہر رگ و پے میں دوڑ گیا۔ جس قدر اس کے درد کی شدت بڑھتی جاتی تھی، اسی قدر اس کا اضطرار نغمہ بڑھتا جاتا تھا۔ کیونکہ اس وقت وہ اس محبت کا نغمہ گا رہی تھی، جس کی تکمیل موت کرتی ہے۔ اس محبت کا نغمہ جو قبر کے اندر بھی مر نہیں جاتا۔
وہ عجیب و غریب پھول مشرقی آسمانوں کے گلاب کی مانند سرخ ہوگیا۔ پنکھڑیوں سرخ تھیں اور سرخ تھا قلب گل جیسے عقیق۔
لیکن صدائے عندلیب، پست تر ہوگئی تھی اور اس نے اپنے بازو پھڑ پھڑانا شروع کر دیئے تھے۔ اس کی آنکھوں پر ایک پردہ سا چھا گیا تھا۔ اس کا نغمہ پست سے پست تر ہوگیا اور اس کے گلے میں پھندا پڑتا ہوا معلوم ہوا۔
اب اس سے ایک آخری بقعۂ نغمہ پیدا ہوا۔ ماہ سیمیں نے اس کو سنا اور صبح کو فراموش کر بیٹھا اور آسمان پر پاؤں پٹکتا رہا۔ اس احمریں گلاب نے بھی اسے سنا اور وجد میں ہمہ تن رعشہ ہوگیا اور نسیم صبح گاہی کے لئے اپنی پنکھڑیاں کھول دیں۔ صدا اس کو پہاڑیوں کے اندر اپنے غار ہائے ارغوانی میں لے گئی اور راعیان خواب آسودہ کو بیدار کر دیا۔ وہ ندیوں کی نے نواز روانی میں بہا اور انہوں نے اس کا پیغام سمندر کو پہنچا دیا۔
’’لے دیکھ‘‘۔ شجر گل پکارا۔ ’’پھول مکمل ہوگیا‘‘۔ لیکن بلبل نے کوئی جواب نہ دیا کیونکہ وہ خار پیوستہ بدل گھاس پژ مردہ پڑی ہوئی تھی۔
دن چڑھے طالب علم نے کھڑکی کھولی اور باہر نظر ڈالی۔
’’کیا خوب خوش قسمتی کا ایک حیرت ناک ماجرا‘‘۔ اس نے ایک چیخ ماری۔
’’سرخ گلاب تو یہ رہا۔ میں نے اپنی ساری عمر میں کبھی ایسا گلاب نہیں دیکھا‘‘۔ وہ بیتابانہ جھکا اور پھول توڑ لیا…۔
’’عکاس‘‘۔
مضامین سے قطع نظر نقاد کے نئے پرچے میں ریاض خیر آبادی، جلیل مانکپوری اور حسرت موہانی کی غزلیں اور مانی جائسی و سیماب اکبر آبادی کی نظمیں بھی شامل ہیں۔ غزلیں تینوں عاشقانہ رنگ کی ہیں۔ مانی جائسی کی نظم ’’مہجور پپیہا‘‘ اور سیماب کی نظم ’’حیات مشترک‘‘ بھی عشقیہ جذبات سے تعلق رکھتی ہیں۔ یوں سمجھ لیجئے کہ نقاد کا پورا پرچہ کیا نظم کیا نثر ’’حسن و عشق اور نیاز و ناز‘‘ کے تخیلی پیکروں کا البم ہے، اور یہ البم نقاد کے مدیر دلگیر نے اپنی افتاد طبع کی موافقت سے قمر زمانی کی خوشنودی مزاج کے لئے جان بوجھ کر تیار کیا ہے۔ پرچہ کیا ہے قمر زمانی اور دلگیر کی داستان معاشقہ کی منہ بولتی تصویر ہے۔ دلگیر نے اس پرچے کو بڑے چاؤ سے قمر زمانی کے ملاحظہ کے لئے بھیجا اور ان سے رائے بھی طلب کی۔ غالباً قمر زمانی اس کے مطالعے میں لگ گئیں یا کسی اور وجہ سے کچھ دنوں کے لئے خاموش ہوگئیں۔ (جاری ہے)

Comments (0)
Add Comment