کری کی تاریخی مسجد کو سکھوں نے اصطبل بنا دیا تھا

دوسری و آخری قسط
احمد خلیل جازم
کری شہر کی اس مسجد کی تاریخ تعمیر تو اس کی پیشانی پر کندہ ہے لیکن مسجد نے زمانے کے بہت اتار چڑھائو بھی دیکھے جن کا ذکر ضروری ہے۔ جس وقت سکھوں کی پنجاب پر حکومت تھی، ان دنوں کری شہر میں بھی ہندو اور سکھوں کی حکمرانی قائم ہوئی اور یہ مسجد اس وقت طویلے میں تبدیل کر دی گئی۔ یہ حیران کن انکشاف بھی جمیل احمد نے کیا، جو بعد ازاں تحریری طور پر بھی ہمارے سامنے آیا۔ جب اس سے پوچھا کہ اس مسجد کے محرابی دروازے اس قدر چھوٹے کیوں ہیں؟ تو جمیل کا کہنا تھا کہ ’’مسجد میں ایک بار کھدائی ہوئی اور بعد ازاں اس کی مٹی سے بھرائی کی گئی۔ کیونکہ سکھوں کے دور میں مسجد کو اصطبل کے طور پر استعمال کیا گیا۔ پھر مسلمانوں نے اس مسجد کو قانونی طور پر دوبارہ حاصل کیا، مسجد جب دوبارہ حاصل کی گئی تو اب مقامی مسلمان جو اقلیت میں تھے، ان کے سامنے سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ اسے پاک کیسے کیا جائے؟ چنانچہ ایک بڑے عالم دین سے اس حوالے سے رابطہ کیا گیا۔ مجھے ان عالم دین کا نام یاد نہیں آرہا۔ چونکہ یہ تمام باتیں ہم نے اپنے بڑوں سے سنی تھیں اس لیے جو کچھ یاد ہے وہی آپ کو بتا رہا ہوں۔ ان مولانا صاحب سے مسجد کو اس صورت میں کہ اسے اصطبل کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا ہو، پاک کرنے کا مسئلہ پوچھا گیا۔ چونکہ کئی برس تک یہ مسجد اصطبل کے طور پر استعمال ہوئی۔ اس لیے مولانا نے کہا کہ تمام مسجد کا احاطہ پانچ فٹ تک کھدائی کرکے اس کی مٹی باہر پھینکی جائے۔ بعد ازاں کہیں سے پاک مٹی لاکر اس کی دوبارہ بھرائی کی جانی چاہیے جب جاکر مسجد پاک ہوگی اور نماز ادا کی جاسکے گی۔ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا۔ مسجد کا تمام احاطہ کھودا گیا اور اس کی دوبارہ بھرائی کی گئی، جس کی وجہ سے قدیم دروازے لمبائی میں چھوٹے پڑ گئے۔ جبکہ اندرونی دروازے بعد میں لگائے گئے۔ مسجد کی دیواروں کو بھی دھویا گیا، کھرچا گیا اور مسجد کو نماز کے قابل بنایا گیا‘‘۔
کری شہر کی تاریخ اگرچہ پوٹھوہار کی تاریخ لکھنے والوں نے اس طرح نہیں لکھی جس طرح لکھی جانی چاہیے تھی، اس کے باوجود بعض لوگوں نے پوٹھوہار کی تاریخ پر کام کیا تو جستہ جستہ کری شہر کا ذکر بھی کیا۔ بعض محققین کے مطابق کری شہر ایک وقت میں سینٹرل ایشیا اور کشمیر کے جنکشن کے طور پر جانا جاتا تھا۔ قدیم کری شہر قیام پاکستان تک اپنی موجودہ حالت کو کسی نہ کسی قائم رکھنے میںکامیاب رہا۔ جمیل کا کہنا تھا کہ ’’چونکہ قیام پاکستان کے وقت اس شہر میں ہندو اور سکھوں کی رہائش تھی۔ چنانچہ یہاں ایک تاریخی بارہ دری بھی تھی جس کے بارہ دروازے تھے اب وہ بارہ دری بھی فقط قصے کہانیوں میں رہ گئی ہے۔ اس کے ساتھ ایک کنواں بھی تھا، جس کے آثار ابھی تک موجود ہیں اور بارہ دری کے فقط تین یا چار دروازے باقی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ہندو اس کنوئیں کے پانی کو آب شفا کہتے اور یہاں سے دور دراز کے علاقوںمیں پانی بھجوایا جاتا تھا۔ چونکہ سکھوں کی حکومت رہی، اس بارہ دری کو بنوانے والا بھی ایک سکھ تھا، جس کا نام ’’بھائی باغ سنگھ‘‘ تھا۔ اس وجہ سے بارہ دری کا نام بھی بھائی باغ سنگھ بارہ دری معروف ہوا۔ ا ب تو خیر اس کا نام و نشان ہی مٹتا چلا جارہا ہے۔ بلکہ جب سے یہ علاقہ اسلام آباد میں شامل ہوا ہے اور یہاں نجی تعمیراتی کمپنیوں نے سوسائٹیوں کی بنیاد رکھی ہے، انہوں نے ہر چیز کو تلپٹ کردیا ہے۔ کوئی تاریخی ورثہ ان کی دست برد سے محفوظ نہیں رہا۔ سکھوں اور ہندوئوںکے دور میں مسلمان یہاں سر ڈھانپ کر باہر نکلتے تھے، تاکہ ان کی بطور اقلیت شناخت برقرار رہے۔ ایسے حالات میں مسلمانوں کی اس تاریخی مسجد کا وجود برقرار رہنا ایک معجزے سے کم نہیں ہے۔ ورنہ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ بھارت میں مسلمان پاکستان سے زیادہ ہیں، لیکن وہاں وہ بابری مسجد کو نہیں بچا سکے۔‘‘ کری نے بہت اتار چڑھائو دیکھے، سکھوں کا دور حکومت ہو یا پھر مغلیہ دور کری کی یہ قدیم مسجد اپنا وجود قائم رکھنے میں ہمیشہ کامیاب رہی‘‘۔ اس کی دیواروں پر کس طرز کے نقش و نگار تھے؟ جمیل نے اس کے جواب میںکہا کہ ’’میں چونکہ ریٹائرڈ فوجی ہوں، اس لیے مجھے دوران ڈیوٹی پاکستان میں کچھ جگہوں پر ایسی خطاطی کے نمونے دیکھنے کو ملے۔ مثلاً جو خطاطی بادشاہی مسجد یا شاہی قلعے میں ہوئی یا جو نقش و نگار وہاں دیکھے تھے، ویسے ہی اس مسجد کی دیواروں پر بھی تھے۔ وہی کلر اسکیم اور اسی طرح کی خطاطی یہاں بھی دیکھنے کو ملتی تھی۔ اسی لیے میرا گمان ہے کہ اس کی تزئین نو مغلوںکے دور حکومت میں ہوئی ہوگی۔ اس مسجد کی نقل، میں نے سنا تھا کہ پنڈی والی جامع مسجد بھی ہے۔ اس کا ڈیزائن بھی اس سے ملتا جلتا ہے۔ اس کے بھی کئی چھوٹے گنبد تھے بعد میں اس پر ٹائلیں لگا دی گئیں۔ اب اس کی شکل تبدیل ہوگئی ہے۔ کسی نے مجھے دوران سروس بتایا تھا کہ اسی طرز کی ایک قدیم مسجد تاجکستان میں بھی موجود ہے‘‘۔ تاریخی طور پر دیکھا جائے تو سکھوں کا دور حکومت مغلوں سے بعد کا ہے۔ یعنی یہ مسجد سکھوں کی پنجاب پر حکومت کے دوران بطور طویلہ نہیں رہی، بلکہ مغلوں سے پہلے کسی دور میں اسے بطور اصطبل استعمال کیا گیا ہوگا۔ ورنہ مغلیہ فن خطاطی نہ ہوتی۔ کیونکہ سکھوں کے بعد برصغیر کی حکومت انگریزوں کے ہاتھ آئی۔ چنانچہ یہ کہنا زیادہ قرین از قیاس ہے کہ اس کے مغلیہ فن خطاطی کے پیش نظر اس کی تعمیر نو مغلیہ عہد میں ہوسکتی ہے۔ رنجیت سنگھ 1799ء میںتخت نشین ہوا۔ اس وقت اگرچہ ہندوستان پر مغلوںکی حکومت تھی۔ لیکن مغلوں کی آپس میں جنگ و جدل نے سکھ لٹیروں کو اتنا دلیر کردیا تھا کہ انہوں نے لاہور پر قبضہ کرلیا تھا۔
’’امت‘‘ کی ٹیم نے جس وقت مسجد کے صحن اور برآمدے کو پار کرکے مسجد کے اندر کمر ے میں قدم رکھا تو مسجد کی محراب کے اوپر ایک کتبہ فارسی زبان میں لکھا ہوا تھا، جس کے مطابق ’’یہ مسجدعبدالحفیظ باتمیز نے تعمیر کرائی اور اس کا سن ہجری، دور ِ نبوی سے کم و بیش دو سو سال بعد کا ہے۔ سکھوں کے دور میں اس مسجد کو طویلہ بنا دیا گیا اور اس میںگھوڑے اور اونٹ باندھے جاتے رہے۔ بعد ازاں ان ظالموںسے مسجد کو چھڑایا گیا‘‘۔ اس کی تعمیر نو ہوتی رہی جس کے مطابق فتح جنگ کے بعض لوگوںکا نام لکھا ہے۔ یہ کتبہ مسجد کے محراب کے اوپر لکھا ہوا ہے۔ قدیم فارسی یا کوئی بھی قدیم زبان پڑھنا آسان امر نہیں ہے۔ ہم نے بعض فارسی جاننے والوں سے کتبے کے حوالے سے بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ یہ قدیم فارسی ہے جس کا ترجمہ آسان نہیں ہے، بہرحال جتنا کچھ کوئی ماہر سمجھ سکتا تھا اس کے مطابق بتایا گیا ہے، کیونکہ قدیم کتبہ پڑھنا بھی ایک فن ہے۔ عمر فاروق کا کہنا تھا کہ ’’یہ کتبہ اصل کی نقل ہے جو بعد میں لکھا گیا، جب کہ اصل کتبہ ایک کاغذ پر تحریر تھا، جو بہت قدیم تھا۔ اس کاغذ کی نقل مسجد کی کسی الماری میں موجود ہوگی‘‘۔ چنانچہ مسجد کی الماریاں کھولی گئیں تو وہاں اصل کی فریم شدہ نقل دستیاب ہوگئی جو اس قابل نہ تھی کہ پڑھی جاسکتے۔ لیکن اسے دیکھ کر یہ اندازہ ضرور ہورہا تھا کہ یہ تحریر اسی سے نقل کی گئی ہے۔ مسجد کے اندر سبز قالین بچھا ہوا تھا اور اس پر سرخ رنگ کے غالیچے بچھا دئیے گئے تھے۔ محراب کے دونوں طرف چراغ رکھنے کے لیے جگہ بنی ہوئی تھی، جبکہ سب سے حیران کن اس مسجد کا منبر تھا۔ مسجد کی محراب کے دائیں جانب یہ انتہائی چھوٹا سا منبر بنا ہوا تھا، جس پر بڑی مشکل سے خطیب صاحب بیٹھ سکتے ہوں گے۔ اس کی اونچائی بھی ایک عام چوکی جتنی ہوگی، یعنی خطاب سننے والوں میں بیٹھے خطیب بس چند انچ ہی اونچے دکھائی دیتے ہوں گے۔ جس طرح آج کے دور میںمساجدکے اونچے اور خوبصورت منبر بنائے گئے ہیں یہ اس کسے مکمل طور پر مختلف ہے۔ مسجد کا قدیم کمرہ تو ایک ہی ہے لیکن اب اس کے ساتھ دائیں بائیں اس کمرے کو کھلا کرکے جگہ بڑھا دی گئی ہے یوں مسجد اندر سے کافی کھلی ہوچکی ہے۔ اندرونی کمرے میں داخلے کے دروازے تین ہیں لیکن اندر چھوٹے محرابی دروازے بھی موجود ہیں جنہیں بند تو نہیں کیا گیا، لیکن باہر سے الماریاں ان کے آگے رکھ دی گئی ہیں۔ ان چھوٹے محرابی دروازوں کے اوپر دونوں اطراف لوہے کے چھلے ٹنگے ہوئے تھے، ان کا مصرف پوچھنے پر معلوم ہوا کہ ’’یہ پرانے زمانے میں چق ڈالنے کے کام آتے ہیں۔ اب تو خیر پردے وغیرہ لگا دئیے جاتے ہیں پہلے چق ڈالی جاتی تھی۔‘‘ مسجد کے سامنے آج بھی ایک پرانی حویلی موجود ہے جو اس علاقے کے قدیم ہونے کی نشان دہی کرتی ہے، جبکہ مسجد سے متصل ایک کمرہ جو بیرونی دیوار کے ساتھ ہے وہ بھی گزرے زمانے کا امین ہے۔ یہ قدیم مسجد اربارب بست وکشاد کی توجہ اپنی جانب مبذول کرا رہی ہے۔ اب بھی وقت ہے کہ اس قدیم ورثے کیلئے حکومت ٹھوس اقدام اٹھائے اور اس کی حفاظت کیلئے مثبت حکمت عملی ترتیب دے، تاکہ آنے والی نسلوں کیلئے اسے محفوظ کیا جاسکے۔

Comments (0)
Add Comment