عمران خان
ایف آئی اے کی ریڈ بک میں شامل انتہائی مطلوب ملزمان میں سے 13 انسانی اسمگلر اپنے خلاف مقدمات درج ہونے کے بعد پاکستان کے مختلف ایئر پورٹس سے بیرون ملک فرار ہونے میں کامیاب ہوئے۔ جبکہ دو انسانی اسمگلر اپنے خلاف مقدمات درج ہونے کے بعد وطن واپس آئے اور ایئر پورٹس سے گزر کر فرار ہونے میں کامیاب ہوئے۔ یہ انسانی اسمگلر آج تک ایف آئی اے کے ہاتھ دوبارہ نہیں آسکے۔
واضح رہے کہ پاکستان کے ایئر پورٹس، خاص طور پر کراچی انٹرنیشنل ایئر پورٹ سے مقدمات میں مفرور اور اشہاری ملزمان کا امیگریشن کے کائونٹرز کی کلیئرنس سے بغیر گرفتار ہوئے نکل جانا کوئی نئی بات نہیں۔ صرف گزشتہ ایک برس میں ایسے دو تازہ واقعات سامنے آچکے ہیں جن میں ملزمان اشتہاری ہونے اور ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل ہونے کے باجود ایئرپورٹ سے فرار ہونے میں کامیاب ہوئے جو ایف آئی اے امیگریشن کی کارکردگی اور ایف آئی اے کے انٹی گریٹیڈ بارڈر منیجمنٹ سسٹم ’’آئی بی ایم ایس ‘‘ اور پائسس سسٹم پر ایک سوالیہ نشان ہے اور لمحہ فکریہ ہے۔
ایف آئی اے کی جانب سے ملک کے بھر کے پانچوں زونز یعنی اسلام آباد، پنجاب، سندھ، بلوچستان اور خیبر پختون سے تعلق رکھنے والے انتہائی مطلوب ملزمان کی جاری کردہ 2018ء کی ریڈ بک میں شامل انتہائی مطلوب ملزمان کے کوائف میں ایف آئی اے کی جانب سے فراہم کردہ معلومات کے مطابق 13 انتہائی مطلوب ملزمان اپنے خلاف مقدمات درج ہونے کے بعد ملک سے فرار ہونے میں کامیاب ہوئے جن میں صبح صادق ولد محمد بشیر، مظفر حسین عرف چنا، ملک فیصل رسول اعوان، ملک زاہد، علی رضا رانا، عقیل احمد عباسی، ممتاز حسین، وقاص احمد، ملک عاصم اقبال عرف بھولا، شیخ محمد عبداللہ، شیخ ندیم حسین اور ساجد کوثر شامل ہیں۔ مذکورہ 13 انسانی اسمگلروں میں شیخ ندیم حسین اور ساجد کوثر کا تعلق کراچی کے انتہائی مطلوب اسمگلروں میں سے ہے۔ جبکہ دیگر تمام پنجاب کے زونز سے تعلق رکھتے ہیں تاہم پنجاب سے تعلق رکھنے والے ملزمان میں سے بھی متعدد کراچی انٹر نیشنل ایئرپورٹ سے ہی فرار ہونے میں کامیاب ہوئے تھے۔
ایف آئی اے کی جانب سے جاری کردہ انتہائی مطلوب انسانی اسمگلروں کی فہرست کی تیاری میں کئی خامیاں بھی سامنے آئی ہیں۔ بعض انسانی اسمگلروں کے کوائف میں ادھوری معلومات درج کی گئی ہیں۔ زیادہ تر انسانی اسمگلروں کے کوائف میں ٹریول ہسٹری یعنی بیرون ملک سفر کے آخری دستیاب ریکارڈ کے خانے میں بتایا گیا ہے کہ ان کا آخری سفری کا ریکارڈ دستیاب ہے۔ تاہم اس کی تفصیل کوائف میں درج نہیں کی گئی ہے۔ اسی طرح سے بہت سے انسانی اسمگلر ایسے ہیں جن کی تصاویر، شناختی کارڈ نمبرز بھی موجود نہیں ہیں۔
ایف آئی اے حکام کی جانب سے جاری کردہ ریڈ بک میں انتہائی مطلوب ملزمان کی فہرست میں پہلی مرتبہ 4 خواتین کے کوائف بھی درج ہیں جن میں کراچی کی ایک، لاہور کی دو اور اسلام آباد کی ایک خاتون شامل ہے۔ ریڈ بک 2018ء کے مطابق پنجاب سے تعلق رکھنے والے مفرور انسانی اسمگلروں کی تعداد 58 ہے۔ جبکہ 34 انتہائی مطلوب ملزمان کا تعلق اسلام آباد سے، 15 کا تعلق سندھ سے، 3 کا خیبرپختون اور 2 کا تعلق بلوچستان سے ہے۔ ریڈ بک 2017ء میں انتہائی مطلوب انسانی اسمگلروں کی تعداد 101 تھی جس میں سے صرف18 گرفتار ہوسکے۔
جن 13 انسانی اسمگلروں کے کوائف سے معلوم ہوا ہے کہ انہوں نے آخری دستیاب امیگریشن ریکارڈ کے مطابق کراچی، لاہور اور اسلام آباد کے ایئر پورٹس کو فرار کیلئے استعمال کیا، ان میں ایف آئی اے پنجاب زون کو مطلوب ماجد علی عباسی اگست 2017ء کو بیرون ملک فرار ہوا جس کے خلاف اس سے قبل ایف آئی اے میں 5 مقدمات درج ہوچکے تھے اور اس کے خلاف عدالتی کارروائی جاری تھی۔ گجرانوالہ زون کو مطلوب اسمگلر صبح صادق جنوری 2013ء میں کراچی ایئر پورٹ سے مسقط جانے کیلئے فرار ہوا تھا۔ ملزم کے خلاف چار مقدمات درج ہیں۔ گجرانوالہ زون کو مطلوب ملزم مظفر حسین چنا مارچ 2014ء میں کراچی انٹر نیشنل ایئرپورٹ سے دبئی جانے میں کامیاب ہوا، ملزم کے خلاف اس وقت تک تین مقدمات درج ہوچکے تھے اور اس پر کارروائی عدالت میں زیر سماعت تھی۔ گجرانوالہ زون کو ہی مطلوب انسانی اسمگلر ملک فیصل رسول اعوان مئی 2014ء میں کراچی انٹرنیشنل ایئرپورٹ سے دبئی فرار ہونے میں کامیاب ہوا۔ ملزم کے خلاف تین مقدمات درج تھے اور ان مقدمات میں ملزم اشتہاری قرار دیا جاچکا تھا۔ گجوانوالہ زون کو ہی مطلوب انسانی اسمگلر ملک زاہد 2008ء میں بینظیر بھٹو انٹرنیشنل ایئر پورٹ اسلام آباد سے برطانیہ جانے میں کامیاب ہوا۔ ملزم کے خلاف اس وقت تک 3 مقدمات درج تھے اور ان مقدمات میں عدالتی کارروائی جاری تھی۔ ایف آئی اے گجرانوالہ زون کو مطلوب ایک اور انتہائی مطلوب انسانی اسمگلر علی رضا رانا 2011ء میں تافتان بارڈر کے ذریعے اپنے پاسپورٹ پر امیگریشن کلیئر کراتے ہوئے ایران فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا۔ ملزم کے خلاف انسانی اسمگلنگ کے دو سے تین برس قبل تین مقدمات قائم ہوچکے تھے جن میں ملزم کے خلاف کارروائی جاری تھی۔ ایف آئی اے راولپنڈی زون کو مطلوب انسانی اسمگلر عقیل احمد عباسی 2009ء میں اسلام آباد انٹرنیشنل ایئرپورٹ سے لندن فرار ہونے میں کامیاب ہوا۔ ملزم کے خلاف انسانی اسمگلنگ کا مقدمہ درج ہے اور ملزم آج تک انسانی اسمگلروں کی فہرست میں شامل ہے۔ اسی طرح سے راولپنڈی زون کو ہی مطلوب انسانی اسمگلر ممتاز حسین 2014ء میں لاہور انٹرنیشنل ایئرپورٹ سے نکلنے میں کامیاب ہوا۔ ملزم کے خلاف ایک برس قبل ہی انسانی اسمگلنگ کے مقدمات درج ہوچکے تھے اور ان پر کارروائی جاری تھی۔ ایف آئی اے راولپنڈی زون کو مطلوب انسانی اسمگلر وقار احمد 2015ء میں پشاور ایئرپورٹ پر بیرون ملک سے آیا اور یہاں سے نکلنے میں کامیاب ہوا۔ ملزم کے خلاف اس وقت بھی انسانی اسمگلنگ کے مقدمات درج تھے اور ملزم مقدمات میں مفرور تھا۔ روالپنڈی زون کو مطلوب انسانی اسمگلر ملک عاصم اقبال عرف بھولا اپنے فرانس کے عارضی کارڈ پر بلوچستان سے ایران جانے میں جون 2007ء میں اس وقت فرار ہونے میں کامیاب ہوا جبکہ اس کا فرانس کا کارڈ ایف آئی اے ریکارڈ کے مطابق زائد المعیاد ہوچکا تھا اور اس کی مدت گزر چکی تھی۔ ملزم کے خلاف اس وقت بھی انسانی اسمگلنگ کے تین مقدمات درج ہوچکے تھے۔ کراچی زون کو مطلوب انسانی اسمگلر شیخ محمد عبداللہ 2012ء کے اگست میں کراچی ایئرپورٹ پر بیرون ملک سے آیا اور امیگریشن کائونٹر سے کلیئر ہوکر روپوش ہوگیا ملزم کے خلاف اس وقت بھی انسانی اسمگلنگ کے مقدمات درج تھے جو صرف ایک برس قبل یعنی2011ء میں درج ہوئے تھے اور ملزم ان مقدمات میں نامزد اور مفرور تھا ،اسی طرح سے کراچی زون کو ہی مطلوب انسانی اسمگلر شیخ محمد ندیم 2012ء میں ہی کراچی ایئرپورٹ سے گزر کر روپوش ہونے میں کامیاب ہوا جس کے خلاف اس وقت تک انسانی اسمگلنگ کے 2 مقدمات درج ہوچکے تھے اور وہ ان میں مطلوب تھا۔ جبکہ لیاری کا رہائشی ساجد کوثر 2014ء میں کراچی انٹرنیشنل ایئر پورٹ سے نکلنے میں کامیاب ہوا جس کے خلاف اس وقت تک انسانی اسمگلنگ کے مقدمات ایک برس قبل ہی درج ہوچکے تھے۔ یہ ملزم بھی آج تک ایف آئی اے کے ہاتھ نہیں آسکا ہے۔
ایف آئی اے ذرائع کے بقول چند ماہ قبل کراچی ایئرپورٹ پر ایف آئی اے اہلکاروں کی ملی بھگت سے ایک ایسے اشتہاری ملزم کے فرار کا واقعہ سامنے آیا جو انٹر پول کو بھی مطلوب تھا اور اس کو ہر حال میں امیگریشن کائونٹر پر گرفتار کیا جانا تھا۔ اس ملزم کا امیگریشن کائونٹر سے کلیئر ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا کیونکہ ایف آئی اے امیگریشن کے آن لائن سسٹم میں ملک کے تمام مفرور ملزمان کے کوائف ڈی پی او دفاتر، نیب، ایف آئی اے اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ذریعے آئی بی ایم ایس سسٹم اور پائسس سسٹم میں فیڈ کرادئے جاتے ہیں، تاکہ یہ ملزمان ملک سے فرار ہونے میں کی صورت میں یا واپس آنے کی صورت میں ایئرپورٹ سے ہی دھر لئے جائیں۔ تاہم کراچی انٹرنیشنل ایئرپورٹ سے ہی قتل کے مشہور کیس کے ملزم شارخ جتوئی بھی مفرور ملزم ہونے اور ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں نام ہونے کے باجود فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ جنہیں بعد ازاں بیرون ملک سے واپس لایا گیا تھا۔ ذرائع کے بقول چند ماہ قبل رونما ہونے والے واقعہ میں فرار ہونے والا ملزم آج تک نرغے میں نہیں آسکا۔ اس واقعے میں ستمبر کو عمان ایئرویز کی فلائٹ سے مسقط ایئر پورٹ سے آنے والے مسافر جب کراچی ایئر پورٹ پہنچے تو ان کی امیگریشن کلیئرنس کے بعد معلوم ہوا کہ فضائی کمپنی کی جانب سے ایف آئی اے امیگریشن کے عملے کو فراہم کی گئی فہرست کے مطابق مجموعی طور پر 18 مسافروں کو لایا گیا تھا۔ تاہم امیگریشن عملے کے ریکارڈ کے مطابق انہوں نے 17 مسافروں کی امیگریشن کلیئرنس دی تھی، جس کے بعد ایک لاپتہ مسافر کے حوالے سے تحقیقات شروع کی گئیں، جس کیلئے فضائی کمپنی کی جانب سے فراہم کوائف کو ایف آئی اے امیگریشن کے پاس موجود اینٹی گریٹڈ بارڈر منجمنٹ ’’آئی بی ایم ایس ‘‘ کے کمپیوٹرائزڈ ریکارڈ سے میچ کیا گیا، جس سے معلوم ہوا ہے کہ ایک مسافر رانا شاہد افضل کے علاوہ تمام مسافرایف آئی اے کے امیگریشن کائونٹرز سے کلیئرنس لے کر گزرے تھے، جس کے بعد رانا شاہد افضل کے پاسپورٹ کے کوائف کو ایف آئی اے امیگریشن کے پاس موجود اسٹاپ لسٹ کے ریکارڈ سے میچ کیا گیا، جس سے معلوم ہوا کہ رانا شاہد فضل کے نام اور پاسپورٹ کے ریکارڈ کے سامنے ریڈ وارنٹ کی تفصیل درج تھی۔ یعنی یہ مسافر ایک قتل کے مقدمہ میں مطلوب تھا جس کی انٹرپول کی مدد سے گرفتاری کیلئے ریڈ وارنٹ جاری تھے۔ اگر یہ مسافر امیگریشن کائونٹر پر کلیئرنس کیلئے آتا تو اس کو فوری طور پر گرفتار کیا جانا لازمی تھا۔ ابتدائی معلومات سامنے آنے کے بعد یہ معاملہ ایف آئی اے اینٹی ہیومن ٹریفکنگ سرکل کراچی میں مزید کارروائی کیلئے دیا گیا ، جہاں پر تفتیشی افسر نے ایف آئی اے امیگریشن کائونٹرز کے اطراف میں لگے کیمروں کی ویڈیو فوٹیج حاصل کی، جس سے معلوم ہوا کہ مذکورہ عمان ایئر ویز کی فلائٹ سے آنے والے تمام مسافر جس وقت امیگریشن کلیئرنس کیلئے کائونٹرز کے سامنے قطار میں موجود تھے۔ اس وقت ملزم رانا شاہد فضل وہیں کھڑا ہوا تھا اور اس کے اطراف میں ایف آئی اے امیگریشن ارائیول کی نائٹ ڈیوٹی کا ہیڈ محرر رائو کلیم انجم اور سول ایوی ایشن کا ملازم عارف کھڑے ہوئے تھے۔ ان تینوں کی حرکات و سکنات مشکوک تھیں اور کچھ ہی دیر میں ملزم رانا شاہد ایف آئی اے امیگریشن کے کائونٹرز سے ایف آئی اے اہلکاروں اور افسران کے استعمال کیلئے بنائے گئے کوریڈور سے گزر کر ایف آئی اے امیگریشن کے دفتر میں داخل ہوا، جس کے فوری بعد ہی ایف آئی اے امیگریشن کا اہلکار رائو کلیم بھی اس کے پیچھے آگیا جہاں سے اس کو بعد ازاں ایف آئی اے امیگریشن کے کائونٹرز سے کلیئر کئے بغیر باہر نکال دیا گیا اور یوں یہ اشتہاری اور مطلوب ملزم باآسانی کراچی ایئرپورٹ سے باہر جانے میں کامیاب ہوگیا۔
اس سے قبل بھی ای سی ایل میں شامل سنگین مقدمات میں مطلوب کئی افراد کے کراچی انٹرنیشنل ایئر پورٹ سے بیرون ملک فرار ہونے کے واقعات سامنے آچکے ہیں۔ ذرائع کے مطابق ملوث اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج کرنے کے بعد انہیں گرفتار کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے تاہم بعض اعلیٰ افسران انہیں بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کیونکہ ان کی گرفتاری کی صورت میں وہ ان سر پرستوں کا نام اپنے اعترافی بیان میں ظاہر کریں گے جن کے کہنے پر انہوں نے ملزم کو فرار کرایا تھا۔