کوئٹہ میں ڈاکٹروں کی ہڑتال صوبہ بھر میں پھیلنے کا خدشہ

مرزا عبدالقدوس
کوئٹہ سے پروفیسر ڈاکٹر ابراہیم خلیل کے اغوا کو ڈیڑھ ماہ سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود اب تک ان کا سراغ نہیں لگایا جاسکا۔ گزشتہ کئی ہفتوں سے کوئٹہ کے تمام بڑے سرکاری اسپتالوں میں او پی ڈیز بند ہونے سے روزانہ چودہ سے سولہ ہزار مریض متاثر ہو رہے ہیں اور ان کو علاج معالجے میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ مغوی ڈاکٹر ابراہیم خلیل کی اہلیہ کو حکومت اور سرکاری اداروں کی اس سلسلے میں کی جانے والی کوششوں پر اعتماد تو ہے اور اپنے شوہر کی بازیابی کے لئے بنائی گئی ڈاکٹر ایکشن کمیٹی پر بھی انہیں مکمل بھروسہ ہے اور اس کی کوششوں کو وہ تحسین کی نظر سے دیکھتی ہیں۔ لیکن ان کی بخیریت واپسی کے لئے فکر مند بھی ہیں۔ کوئٹہ کے تمام بڑے اسپتال جن میں سول ہسپتال، بولان میڈیکل کمپلیس، شیخ خلیفہ بن زید اسپتال اور دیگر بڑے ہسپتال شامل ہیں، کے او پی ڈی مکمل بند ہیں۔ جبکہ ڈاکٹرز نے اب پرائیویٹ اسپتالوں میں بھی روزانہ سہ پہر تین بجے سے شام پانچ بجے تک او پی ڈیز کا بائیکاٹ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر ابراہیم خلیل کی بازیابی کے لئے بنائی گئی ایکشن کمیٹی نے گزشتہ روز اپنے ایک اجلاس کے بعد جاری کردہ بیان میں حکومت کی اس سلسلے میں کوششوں پر عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے اور حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ڈاکٹر ابراہیم خلیل کی بحفاظت بازیابی کو فوری طور پر یقینی بنایا جائے اور صوبے میں ڈاکٹرز کے تحفظ کیلئے سنجیدہ اقدامات کئے جائیں۔ نیز یہ کہ ڈاکٹرز کو پرامن احتجاج کے حق سے محروم کر کے انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہ کی جائے۔ اس اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ اگر حکومت نے موجودہ بے حسی اور غیر ذمہ دارانہ طرز عمل جاری رکھا تو جلد ہی صوبے بھر میں تمام ضلعی ہیڈ کوارٹر اسپتال اور دیگر اسپتالوں میں بھی شٹ ڈاؤن اور ہڑتال پر ڈاکٹر مجبور ہوں گے۔
کوئٹہ میں موجود ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ حکومت نے ڈاکٹر ابراہیم خلیل کی بازیابی کیلئے جو جے آئی ٹی بنائی تھی، وہ عملی اقدامات کرنے یا اغوا میں ملوث کسی گروپ یا تنظیم کے پاس ان کی موجودگی کا سراغ لگانے میں ناکام رہی ہے۔ ذرائع کے مطابق اغوا کاروں نے ڈاکٹر ابراہیم خلیل کے اہلخانہ سے رابطہ کر کے تاوان کیلئے بھاری رقم کا مطالبہ کیا ہے۔ اس کا انکشاف مغوی ڈاکٹر کے خاندان کے ایک اہم رکن نے کیا۔ البتہ ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر ابراہیم خلیل کی اہلیہ نے اس کی تردید کی ہے۔ دوران گفتگو وہ کسی حد تک مطمئن تھیں کہ حکومت اور انتظامیہ ممکن حد تک ان کے شوہر کی بازیابی کیلئے کوشاں ہیں اور ایکشن کمیٹی بھی کافی محترک ہے اور اس پر انہیں اعتماد ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’ابھی تک ہم سے کسی نے رابطہ نہیں کیا اور نہ کسی نے رقم کی ڈیماند کی ہے۔ ہم انتظار کر رہے ہیں اور دعا گو ہیں کہ ڈاکٹر صاحب جلد خیریت سے واپس آئیں‘‘۔ ایک سوال پر مسز ڈاکٹر ابراہیم کا کہنا تھا کہ ان کے پاس انتظار کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔
دوسری جانب ڈاکٹرز کی ہڑتال کی وجہ سے او پی ڈیز بند ہونے سے تقریباً پندرہ ہزار مریض روزانہ متاثر ہو رہے ہیں۔ فوری طبی امداد نہ ملنے کے سبب بعض اموات بھی ہوئی ہیں۔ اس بارے میں جب ’’امت‘‘ نے ایکشن کمیٹی کے قائم مقام چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر غلام رسول سے گفتگو کی تو انہوں نے کہا کہ ’’عوام اور مریضوں کی مشکلات کو مد نظر رکھتے ہوئے آپریشنز، ایمرجنسی، ٹراماسنٹر، ڈلیوری وغیرہ جیسے شعبوں میں کام ہو رہا ہے اور مریضوں کے علاج کا سلسلہ جاری ہے۔ البتہ او پی ڈی اور کورٹ کیسز سے متعلق معاملات کا ہم نے بائیکاٹ کیا ہوا ہے۔ عوام کی مشکلات کا احساس ہے، لیکن حکومت کی توجہ حاصل کرنے کے لئے ایسا کرنے پر ہم مجبور ہیں‘‘۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ ’’ہمیں احساس ہے کہ روزانہ بارہ سے پندرہ ہزار مریض پریشان ہو رہے ہیں۔ لیکن ڈاکٹر ابراہیم خلیل کے اغوا کو ڈیڑھ ماہ گزر گیا۔ ان کو بازیاب کرانے میں اب تک حکومت ناکام ہے۔ اس سے پہلے اس طرح کے اڑتیس (38) کیسز ہوچکے ہیں۔ گزشتہ دنوں بھی بعض دیگر ڈاکٹرز جن میں پروفیسر ڈاکٹر عبدالباری بھی شامل ہیں، کو اغوا کرنے کی کوشش کی گئی، جو ناکام رہی۔ اسی طرح ڈاکٹر محمود کو اغوا کیا گیا۔ لیکن مقامی افراد نے انہیں بازیاب کرایا اور سرکاری مشینری بے بس نظر آئی‘‘۔ ایک اور سوال کے جواب میں ڈاکٹر غلام رسول کا کہنا تھا کہ ’’ہم یہ سمجھنے یا بتانے سے قاصر ہیں کہ اغوا کار کون ہیں اور ان کے مقاصد کیا ہیں۔ ہماری اس سلسلے میں وہی معلومات ہیں جو ایک عام آدمی کی ہیں۔ اغوا کاروں اور اس کے محرکات کو بے نقاب کرنا حکومت کا کام ہے۔ البتہ تاوان کی وصولی اور مطالبہ ماضی کی وارداتوں میں ہوا ہے۔ اس اغوا کا مقصد رقم کا حصول بھی ہوسکتا ہے‘‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایک عمومی رائے یہ بھی ہے کہ بعض اغوا کار گروپوں کو کچھ اعلیٰ انتظامی افسران اور بعض کو چند سیاست دانوں کی سرپرستی حاصل ہے۔ جبکہ جو چند ایک باغی گروپ ہیں، ان کے بھی اس کام میں ملوث ہونے کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جاسکتا۔ لیکن حقائق سے پردہ سرکاری ادارے اور ایجنسیاں ہی اٹھا سکتی ہیں۔ ہمارا مطالبہ یہ ہے کہ ڈاکٹرز کو پورے صوبے میں تحفظ فراہم کیا جائے، تاکہ وہ یکسوئی اور اطمینان کے ساتھ انسانیت کی خدمت کرسکیں۔ ڈاکٹر ابراہیم خلیل ایک مکمل انسان دوست مسیحا ہیں۔ ان کی بخیریت بازیابی تک پرامن احتجاج کا تمام دوستوں کا مشترکہ فیصلہ ہے۔ ان کا خاندان اور بچے بھی بہت پریشان ہیں۔ اس کا بھی تمام متعلقہ افراد و اداروں کو احساس ہونا چاہئے۔

Comments (0)
Add Comment