امت رپورٹ
کراچی میں تجاوزات کے نام پر دکانوں اور رہائشی عمارتوں کو مسمار کرنے یا جزوی طور پر گرانے کا تعلق شہری دہشت گردی کو کنٹرول کرنے کے پلان سے جڑا ہے۔ اس معاملے سے آگاہ ذرائع نے بتایا کہ یہ سوچ جنرل رضوان اختر کے دور میں ہی پیدا ہوگئی تھی کہ جب تک شہر میں واقع بے ہنگم اور گنجان کالونیوں کو کشادہ اور درست شکل میں نہیں لایا جاتا، یہ پیچیدہ اور گنجان آبادیاں دہشت گرد اور جرائم پیشہ افراد کا ٹھکانہ یا مسکن بنی رہیں گی اور اس کے نتیجے میں اربن ٹیررزم کو کنٹرول نہیں کیا جاسکے گا۔
واضح رہے کہ شہر کو کشادہ کرنے اور تجاوزات کے خاتمے کے نام پر مختلف مارکیٹوں اور رہائشی عمارتوں کو مسمار کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ ان میں سے کئی مارکیٹوں کی دکانیں اور بعض رہائشی علاقوں کی عمارتوں کو گرادیا گیا ہے یا چھیل کر پرانی حالات میں لایا گیا ہے اور بیشتر مارکیٹوں اور رہائشی عمارتوں یا کالونیوں کو نوٹسز جاری کئے جا چکے ہیں۔ اس سلسلے میں کراچی کو 1950ء والی حالت میں واپس لانے کے عدالتی احکامات بھی جاری کئے جاچکے ہیں۔ ساتھ ہی کراچی میں 500 عمارتیں گرانے کی خبریں بھی چل رہی ہیں۔
اسلام آباد میں موجود ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) رضوان اختر جب کراچی میں مستقل قیام امن اور بالخصوص شہری دہشت گردی کے خاتمے کے لئے کام کر رہے تھے تو انہوں نے اس حوالے سے مختلف سفارشات مرتب کرکے پالیسی سازوں کو دی تھیں۔ ان سفارشات میں یہ دو اہم نکات بھی شامل تھے کہ جب تک سول انتظامیہ کو غیر سیاسی نہیں کیا جاتا، کراچی میں شہری دہشت گردی اور مختلف مافیاز کا مکمل قلع قمع ممکن نہیں۔ اور دوسرا یہ کہ جس طرح نوّے کی دہائی میں اندرون سندھ کچے کا علاقہ اور گھنے جنگلات ڈاکوئوں کا مسکن بنے ہوئے تھے اور سیکورٹی فورسز کی ان گھنے جنگلوں میں واقع ڈاکوئوں کے ٹھکانوں تک رسائی مشکل ہوا کرتی تھی۔ اسی طرح کراچی بھی بغیر ماسٹر پلان کے تعمیر ہونے والی بے ہنگم گنجان آبادیوں کا جنگل بن چکا ہے۔ غیر قانونی طور پر بنی ان قدیم گنجان آبادیوں (جن میں سے بیشتر لیز ہوچکی ہیں) کی تنگ و تاریک گلیاں اور چور راستے دہشت گردوں اور دیگر جرائم پیشہ افراد کے لئے بڑا ایڈوانٹیج ہیں۔ جہاں اگر رکاوٹوں کو عبور کر کے بمشکل سیکورٹی اہلکار پہنچ بھی جائیں تو یہ دہشت گرد اور جرائم پیشہ افراد تنگ و تاریک گلیوں اور چور راستوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے فرار ہونے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ دہشت گردوں یا مافیا کارندوں کو جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے ٹریس بھی کرلیا جائے تو درست مقام تک پہنچنے میں تاخیر ہوجاتی ہے، جس کا فائدہ دہشت گرد یا جرائم پیشہ شخص اٹھاتا ہے۔ جبکہ ان گنجان آبادیوں میں بیٹھ کر دہشت گرد اپنی منصوبہ بندی بھی کرتے ہیں اور بھتہ خور رقم وصولی کے لئے فون کرتے ہیں۔ ذرائع کے بقول سفارشات میں نقشے کی منظوری کے بغیر تعمیر کئی منزلہ بلند عمارتوں کا ذکر بھی کیا گیا اور بتایا گیا چھوٹی چھوٹی جگہ پر بنائے جانے والی ان عمارتوں میں لاتعداد افراد اور فیملیاں رہائش پذیر ہیں۔ کسی کو پتہ نہیں ہوتا کہ کس فلیٹ میں کون رہ رہا ہے اور کون نہیں رہ رہا۔ دہشت گرد عموماً اس نوعیت کی گنجان آباد رہائشی عمارتوں کا فلیٹ کرایہ پر لے کر دو تین دن قیام کرتے ہیں اور پھر کارروائی کرکے نکل جاتے ہیں۔ لہٰذا فنانشل دہشت گردی کے لئے رقم جمع کرنے میں بھی یہ بے ہنگم گنجان آبادی اور رہائشی عمارتیں استعمال ہو رہی ہیں۔ ذرائع کے مطابق سفارشات میں کہا گیا تھا کہ جب تک اس بے ہنگم آبادیوں اور رہائشی عمارتوں کو ری اسٹرکچر نہیں کیا جاتا اور اس سلسلے کو مزید آگے بڑھنے سے روکا نہیں جاتا، شہری دہشت گردی اور مافیاز کا مکمل خاتمہ ممکن نہیں۔ اس کے لئے شہر کو ماسٹر پلان کے مطابق کشادہ کرنا ضروری ہے۔ ورنہ آبادی کے مقابلے میں کہیں کم تعداد رکھنے والی پولیس اور قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کے اہلکاروں کو چاہے کتنے ہی جدید وسائل فراہم کردیئے جائیں، انہیں اربن ٹیررزم سے نمٹنے میں رکاوٹوں کا سامنا رہے گا۔ ذرائع کے بقول اس پلان کے حق میں یہ دلیل بھی دی گئی کہ Rural Terrorism(دیہی علاقوں میں دہشت گردی) کے خاتمے میں سیکورٹی فورسز نے جو رزلٹ دیئے، وہ اسی لئے ممکن ہوسکے کہ سیکورٹی فورسز کی Movement (نقل و حرکت) میں کوئی رکاوٹ نہیں تھی اور انہیں دہشت گردوں کے ٹھکانوں تک رسائی میں آسانی تھی۔ اس کے برعکس کراچی کی گنجان آبادیوں میں قدم قدم پر رکاوٹ ہے۔ ذرائع کے مطابق کراچی کو دہشت گردی اور مافیاز سے پاک کرنے سے متعلق جو سفارشات پیش کی گئی تھیں، شہر میں جاری مسمار مہم کے ذریعے اس پلان کو عملی شکل دی جارہی ہے اور فیصلہ کیا گیا ہے کہ کراچی کا بنیادی ڈھانچہ ٹھیک کرکے گنجان کالونیوں اور عمارتوں کو نقشے کے مطابق درست کیا جائے۔
کراچی صفورا گوٹھ میں اسماعیلی برادری کی بس کو ؕنشانہ بنانے والے دہشت گردوں کے خلاف کارروائی میں شامل ایک سیکورٹی افسر کے بقول دہشت گردوں نے اس کارروائی کے لئے گلستان جوہر سے ملحق صفورا گوٹھ کا انتخاب اس لئے کیا تھا کہ وہاں بے ہنگم بغیر نقشے کے مکانات بنے ہوئے ہیں اور بیشتر ملحقہ علاقے ویران ہیں۔ اسی طرح گلستان جوہر رابعہ سٹی اور اس کے اردگرد کے علاقوں میں ایم کیو ایم اور اے این پی کے درمیان تصادم کے دنوں میں پولیس اور دیگر سیکورٹی اہلکاروں کو کارروائی میں اس لئے دشواری کا سامنا رہا کہ فلیٹوں کے اس جنگل میں ملزمان کو فرار ہونے کے لئے بہت سے راستے دستیاب ہیں۔ سیکورٹی افسر کے مطابق گلستان جوہر میں بیشتر رہائشی عمارتوں کے سینکڑوں فلیٹس غیر آباد پڑے ہوئے ہیں۔ بیشتر عمارتوں کے مالکان قانونی معاملات کے سبب لوگوں کو فلیٹوں کی پوزیشن نہیں دے سکے۔ اور بعض کے انویسٹر پیسہ وصول کرکے بھاگ چکے ہیں اور یہ نامکمل عمارتیں بھی دہشت گردوں اور جرائم پیشہ عناصر کے ٹھکانے بنی ہوئی ہیں۔ جبکہ گلستان جوہر سے ملحق پہلوان گوٹھ، صفورا گوٹھ، سچل گوٹھ سے لے کر سہراب گوٹھ کی بیشتر آبادیوں میں دہشت گرد اپنے منصوبے تیار کرتے ہیں۔
ذرائع کے مطابق ابتدائی طور پر کراچی کے اولڈ سٹی ایریا میں شروع ہونے والی ’’مسمار مہم ‘‘ بتدریج شہر کے دیگر علاقوں تک پہنچے گی۔ اور اس مہم کا سلسلہ جاری رہنے کی صورت میں لائنز ایریا کی گنجان آبادی، لیاقت آباد کی بندھانی کالونی، عیسیٰ نگری اور نئی کراچی کی بعض گنجان کچی آبادیاں زد میں آئیں گی۔
تجاوزات مہم کے نام پر اب تک کراچی میں جو کارروائی کی گئی ہے، اور کی جانے والی ہے، اس حوالے سے ’’امت‘‘ کو دستیاب معلومات کے مطابق ایمپریس مارکیٹ کی ڈھائی سو دکانیں گرائی جاچکی ہیں۔ گارڈن (چڑیا گھر) کے اطراف میں واقع کے ایم سی کی چار سو سے زائد دکانوں پر بھی بلڈوزر چلایا جا چکا۔ اسی طرح آرام باغ، برنس روڈ، جامع کلاتھ اور لائٹ ہائوس کے علاقے میں پانچ سو کے قریب دکانیں مسمار یا جزوی طور پر توڑی جا چکی ہیں۔ کھوڑی گارڈن، چھانٹی گلی، برتن گلی اور چھبہ گلی کے مختلف علاقوں میں بھی کے ایم سی کی چار سو کے قریب دکانیں گرائی گئی ہیں۔ برنس روڈ کے ایک رہائشی امجد کا فلیٹ بھی اس ’’تجاوزات مہم‘‘ کی زد میں آیا۔ امجد نے بتایا کہ صرف اس کی رہائشی عمارت ہی نہیں، بلکہ برنس روڈ کی دیگر رہائشی بلڈنگز کو جزوی طور پر توڑا گیا ہے۔ کارروائی کے لئے آنے والے سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے اہلکار اس وقت کی میونسپل کارپوریشن کا بنایا ہوا 1950ء کا ماسٹر پلان ساتھ لے کر آئے تھے۔ اور برنس روڈ کی تمام رہائشی عمارتوں کو چھیل کر 69 برس پرانی شکل میں لایا گیا ہے۔ جس کے تحت ان عمارتوں میں بنائے گئے اضافی کمرے، چھجے اور بعض ایسی تعمیرات بھی مسمار کردی گئیں، جو کسی صورت بھی ٹریفک یا عوام کے لئے پریشانی کا سبب نہیں بن رہی تھیں۔
اگلے مرحلے میں جن رہائشی عماتوں اور مارکیٹوں کو گرانے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور انہیں نوٹس جاری کئے جاچکے ہیں، ان میں لی مارکیٹ (کے ایم سی مارکیٹ) کے دکانداروں کو 12 فروری کی ڈیڈ لائن دی گئی ہے۔ یہاں دکانوں کی تعداد اگرچہ 702 کے قریب بتائی جاتی ہے، تاہم ذرائع کے بقول دکانوں کی اصل تعداد 1200 سے زائد ہے اور اس مارکیٹ کی حدود کے اندر دودھ منڈی، سبزی مارکیٹ، گوشت مارکیٹ، مچھلی مارکیٹ، رضائی کمبلوں کی مارکیٹ، چائے کی پتی کی مارکیٹ اور دیگر چھوٹی چھوٹی مارکیٹیں بنی ہوئی ہیں۔ ان کو گرائے جانے کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر لوگ بے روزگار ہوجائیں گے۔ اسی طرح اردو بازار، بہادر شاہ ظفر مارکیٹ، اورنگزیب مارکیٹ، جوبلی مارکیٹ اور فریئر مارکیٹ کے دکانداروں کو بھی نوٹسز جاری کئے گئے تھے۔ تاہم دکانداروں کے احتجاج پر کارروائی روک کر ایک کمیٹی بنادی گئی ہے، جو اس بات کا جائزہ لے رہی ہے کہ نالے پر کون سی دکانیں تعمیر ہیں۔ اس کمیٹی کی سفارشات پر کارروائی کی جائے گی۔ جبکہ کھارادر میں جماعت خانے کے سامنے واقع تقریباً 400 دکانوں پر مشتمل مچھی میانی مارکیٹ کے دکانداروں کو بھی نوٹسز موصول ہوچکے ہیں۔
متاثرین کا کہنا ہے کہ متعلقہ اداروں سے قانونی اجازت لے کر تعمیر کی گئی دکانوں کو مسمار کرکے کراچی کو 1950ء والی حالت میں بحال کرنے کا کام تو کیا جارہا ہے، لیکن یہ نہیں دیکھا جارہا کہ اس کے نتیجے میں ہزاروں لوگوں کے گھروں کا چولہا بجھ جائے گا۔ بغیر منصوبہ بندی کے شروع کی گئی اس مہم کے تحت متاثرین کو متبادل جگہ فراہم نہیں کی جارہی اور اس حوالے سے محض زبانی وعدے کئے گئے ہیں۔ ایمپریس مارکیٹ کے ڈھائی ہزار کے قریب دکانداروں،گارڈن کے چار سو سے زائد دکانداروں اور لائٹ ہائوس کے ساڑھے تین سو کے قریب دکانداروں کو تاحال متبادل جگہ فراہم نہیں کی گئی ہے۔٭