محمد یوسف کا مزید کہنا تھا کہ ان قیدیوں میں سے ایک حبشی اربننو بھی تھا، اس نے میری باتوں سے خاصا اثر قبول کیا اور ایک دن کہنے لگا… ’’تم بڑی باہمت لڑکی ہو، اگر تم واقعی یہ چاہتی ہو کہ برائی کا خاتمہ ہو جائے تو برنارڈو کا خاتمہ کردو؟‘‘
’’’برنارڈو کون ہے؟‘‘ … میں نے پوچھا۔ ’’برنارڈو اس شہر میں ایک بڑی مافیا فیملی کا سربراہ ہے، وہی شخص ہے جو اس شہر میں منشیات کا اجارہ دار ہے۔ اگر وہ نہ ہو تو لوگوں کو منشیات نہ ملیں اور نہ لوگ ان کے عادی ہی ہوں، وہ بڑا خطرناک آدمی ہے… آج میں جس حالت کو پہنچا ہوں، اس کا ذمہ دار بھی برنارڈو ہے۔‘‘
’’میں برنارڈو سے کیسے مل سکتی ہوں؟‘‘
اس نے میرے کان میں مجھے برنارڈو کا پتہ بتا دیا، جب میں جانے لگی تو اربننو کا لہجہ یکسر بدل گیا تھا۔ وہ ندامت کے ساتھ کہنے لگا ’’مجھ سے غلطی ہوئی کہ میں نے تم سے برنارڈو کا ذکر کیا، تم اس سارے واقعے کو بھول جاؤ، اندازہ نہیں کر سکتی ہو کہ برنارڈو کتنا خطرناک آدمی ہے؟‘‘
’’مگر میں اس کو ملنے کا فیصلہ کر چکی ہوں‘‘… میں نے عزم سے کہا۔ ’’تم اس سے مل کر کیا کرو گی؟‘‘ اس نے پوچھا۔
’’اس کو سیدھا راستہ دکھانے کی کوشش کروں گی۔‘‘ وہ ہنسنے لگا، اس کے قہقہے دور تک میرا پیچھا کرتے رہے۔
صبح کا وقت تھا، جب میں وقت طے کئے بغیر برنارڈو کے عالیشان گھر کے اندر داخل ہوئی۔ اس گھر کو دیکھ کر کوئی شخص اندازہ نہ کر سکتا تھا کہ اس گھر میں رہنے والا شخص کوئی بہت بڑا مجرم ہے۔
’’تم یہاں کیا کررہی ہو؟‘‘… ایک ملازم نے مجھے روک کر پوچھا۔ وہ میرے لباس اور میری وہیل چیئر کو غور سے دیکھ رہا تھا۔
’’مجھے مسٹر برنارڈو سے ملنا ہے۔‘‘ میں نے کہا۔
’’تمہیں…‘‘ اس نے قہقہہ لگا کر کہا۔ ’’مسٹر برنارڈو سے ملنا اتنا آسان نہیں۔‘‘
’’آخر کیوں؟‘‘ میں نے کہا… ’’وہ بھی انسان ہے اور انسان انسانوں سے ملا جلا کرتے ہیں۔‘‘
ہم دونوں میں تو تکرار ہونے لگی، اسی وقت ایک ادھیڑ عمر کا مضبوط جثے والا آدمی ایک کمرے سے باہر نکلا اور غصے سے بولا ’’یہ کیا ہو رہا ہے؟ شور کیوں مچا رکھا ہے؟‘‘ ملازم نے اس شخص کے سامنے سر جھکا کر کہا ’’یہ لڑکی آپ سے ملنے پر اصرار کر رہی تھی۔‘‘
’’مجھ سے؟‘‘ اس نے پوچھا کیا کام ہے؟ ’’میں آپ سے علیحدگی میں بات کرنا چاہتی ہوں۔‘‘ میں نے کہا۔ برنارڈو نے کچھ تعجب سے میری طرف دیکھا، پھر ملازم کو وہاں سے جانے کا اشارہ کیا، جب ملازم چلا گیا تو برنارڈو نے بڑی نخوت سے کہا ’’میں اس طرح سے ملاقات نہیں کرتا ہوں، تم معذور ہو، اس لئے رک گیا، کہو میں تمہاری کیا مدد کر سکتا ہوں؟‘‘
میں نے اس کی طرف دیکھا اور اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا: ’’مسٹر برنارڈو! کیا واقعی آپ اس معذور لڑکی کے کسی کام آنا چاہتے ہیں؟‘‘
اس نے جواب دینے سے پہلے کچھ سوچا، پھر مسکرا کر کہا: ’’ہاں کہو، میں تمہاری کیا مدد کر سکتا ہوں؟‘‘
میں نے پھر آنکھوں میں آنکھیں ڈال دیں۔ میں نے محسوس کیا کہ مسٹر برنارڈو کچھ بے چینی محسوس کر رہا ہے، وہ میری نظروں سے نظریں چرا رہا تھا۔
’’مسٹر برنارڈو‘‘! ۔ میں نے کہا۔ ’’خدا نے آپ کو سب کچھ دیا ہے، اب آپ کو ہدایت کی ضرورت ہے، سچی ہدایت کی۔‘‘
’’لڑکی… میں نہیں جانتا تم کون ہو، میرا وقت بہت قیمتی ہے، دو منٹ میں اپنی بات ختم کرو۔‘‘
میں نے جب بات شروع کی تو برنارڈو کا چہرہ طیش اور غصے سے سرخ ہوگیا۔ اس نے غصے کو دبا کر کہا… ’’تم پاگل ہو، نکل جاؤ یہاں سے، تمہیں کس نے بتایا ہے کہ میں یہ کام کرتا ہوں؟ میں تمہیں اور تم کو یہ بتانے والے کو زندہ نہ چھوڑوں گا۔‘‘
میں نے بڑے اطمینان سے کہا ’’آپ کے اس غصے اور جوش ہی سے ظاہر ہو جاتا ہے کہ مجھے آپ کے بارے میں جو اطلاع ملی ہے، وہ درست ہے۔‘‘
’’تم بکتی ہو، چلی جاؤ یہاں سے، مجھے تمہارے اپاہج پن کا خیال آرہا ہے ورنہ…‘‘
’’میں جانتی ہوں مسٹر برنارڈو آپ بہت طاقتور ہیں، سارا شہر آپ کے چنگل میں پھنسا ہوا ہے۔‘‘
’’آخر تم چاہتی کیا ہو؟‘‘ برنارڈو نے گرج کر کہا۔
’’میں چاہتی ہوں کہ آپ خلق خدا کے فائدے کے لئے اپنا یہ دھندا چھوڑ کر کوئی اور کام کریں اور اگر آپ سے یہ ممکن نہیں تو پھر مجھ معذور لڑکی پر کرم کریں، مجھے ہر روز پانچ منٹ ملاقات کا وقت دے دیا کریں۔‘‘
وہ حیرت سے میرا منہ تکنے لگا۔ پھر اس نے قہقہہ لگایا اور بولا ’’تم ضد کی پکی ہو… تم کل پھر آسکتی ہو اسی وقت۔‘‘
میں وہاں سے نکلی تو بے حد مطمئن تھیں۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭