ایک نوجوان حضرت ابن مبارکؒ کی خدمت میں آیا۔ آپؒ کے پاؤں پرگر کر زار و قطار رو دیا اور عرض کیا: میں نے ایسا گناہ کیا ہے کہ میں اسے شرم کے مارے بیان نہیں کر سکتا۔ آپؒ نے فرمایا: بتلاؤ تو سہی، آپ نے کیا کیا ہے؟
اس نے کہا: میں نے زنا کیا ہے، آپؒ نے اس کے سامنے زنا کی برائی بیان فرمائی اور پھر فرمایا: میں ڈر گیا تھا کہ شاید تو نے کسی کی غیبت کی ہے۔
جس گناہ کو آج معاشرے کا لازمی حصہ قرار دیا جاتا ہے اور جس گناہ کے ہماری مجالس نامکمل رہتی ہیں، اس کی شدت کتنی زیادہ ہے، حق تعالیٰ ہم سب کی حفاظت فرمائیں۔
امام شاذ کونیؒ کی مغفرت!
حافظ شمس الدین سخاویؒ تحریر فرماتے ہیں کہ مشہور محدث امام ابو ایوب سلیمان بن دائود شاذکونیؒ کو کسی نے ان کی وفات کے بعد خواب میں دیکھا اور پوچھا کہ ’’حق تعالیٰ نے آپ کے ساتھ کیا معاملہ فرمایا؟‘‘
انہوں نے جواب دیا کہ ’’حق تعالیٰ نے میری مغفرت فرما دی۔‘‘ پوچھا کہ کس عمل کی بنا پر؟
انہوں نے جواب میں فرمایا کہ: ایک روز میں اصفہان جا رہا تھا، راستے میں زور کی بارش شروع ہوئی، مجھے سب سے زیادہ فکر اس بات کی تھی کہ میرے ساتھ کچھ کتابیں ہیں، اگر وہ ضائع ہو گئیں تو میری ساری پونجی لٹ جائے گی، قریب میں کوئی سائبان یا چھت نہ تھی، جس کے پیچھے پناہ لی جا سکے، چنانچہ میں نے اپنے جسم کو دہرا کر کے کتابوں پر سایہ کر دیا تاکہ وہ حتی الامکان بارش سے محفوظ رہیں۔
بارش ساری رات جاری رہی اور میں ساری رات اسی حالت میں بیٹھا رہا۔ صبح کے وقت بارش رکی اور میں سیدھا ہوا۔ حق تعالیٰ نے اس عمل کی وجہ سے میری مغفرت فرما دی۔ (تراشے، مفتی تقی عثمانی)
غلط خوابوں کا انجام!
شریکؒ خلیفہ مہدی کے زمانے میں قاضی تھے، ایک مرتبہ مہدی کے پاس پہنچے تو اس نے انہیں قتل کرنے کا ارادہ ظاہر کیا، قاضی نے وجہ پوچھی تو امیر نے کہا میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ تم میرا بستر روند رہے ہو اور مجھ سے منہ موڑے ہوئے ہو، میں نے یہ خواب ایک معبر کے سامنے پیش کیا تو اس نے یہ تعبیر دی کہ قاضی شریک ظاہر میں تو آپ کی اطاعت کرتے ہیں، لیکن اندر اندر آپ کے نافرمان ہیں۔
قاضی شریک نے جواب دیا خدا کی قسم! امیرالمومنین! نہ آپ کا خواب ابراہیمؑ کا خواب ہے اور نہ آپ کی تعبیر دینے والا یوسف علیہ السلام ہے۔ تو کیا آپ جھوٹے خوابوں کے بل پر مسلمانوں کی گردنیں اتارنا چاہتے ہیں، یہ سن کر امیر اپنے ارادے سے باز آگیا۔ (مخزن)
حضرت اوس بن خارجہؒ
حضرت امام مالکؒ نے فرمایا: اوس بن خارجہ سے سوال ہوا تمہارا سردار کون ہے؟ انہوں نے کہا حاتم طائی، پھر پوچھا کہ آپ اس کے مقابلے میں کس درجے میں ہیں؟ فرمایا میں اس کے خادم ہونے کے بھی قابل نہیں ہوں، حاتم طائی سے سوال ہوا، تمہارا سردار کون ہے؟ جواب دیا اوس بن خارجہ، پھر سوال ہوا آپ اس کے مقابلے میں کس درجہ پر ہیں؟ فرمایا میں اس کے مملوک ہونے کے بھی قابل نہیں ہوں۔ (مخزن 198)
٭٭٭٭٭