سبب ِنزول:
اس سورت کی ابتدائی آیات کے نزول کا سبب ایک خاص واقعہ ہے کہ حضرت اوس بن الصامتؓ نے ایک مرتبہ اپنی بیوی حضرت خولہؓ کو یہ کہہ دیا کہ ’’انت علی کظھر امی‘‘ ’’تو میرے حق میں ایسی ہے جیسے میری ماں کی پشت‘‘ یعنی حرام ہے۔ آنحضرتؐ کی بعثت سے قبل زمانہ جاہلیت میں یہ لفظ ابدی اور دائمی حرمت کے لئے بولتے جاتے تھے، جو طلاق مغلظہ سے بھی زیادہ سخت تھے۔ حضرت خولہؓ یہ واقعہ پیش آنے پر نبی کریمؐ کی خدمت میں اس کا حکم شرعی معلوم کرنے کے لئے حاضر ہوئیں۔ اس وقت تک اس خاص مسئلے سے متعلق آپؐ پر کوئی وحی نازل نہ ہوئی تھی۔ اس لئے آپؐ نے اس قول مشہور کے موافق ان سے فرما دیا ’’ما اراک الا قد حرمت علیہ‘‘ یعنی میری رائے میں تو تم اپنے شوہر پر حرام ہوگئیں۔ وہ یہ سن کر واویلا کرنے لگیں کہ میری جوانی سب اس شوہر کی خدمت میں ختم ہوگئی، اب بڑھاپے میں انہوں نے مجھ سے یہ معاملہ کیا، میں کہا جائوں؟ میرا اور میرے بچوں کا گزارہ کیسے ہوگا؟ اور ایک روایت میں ہے کہ خولہؓ نے یہ عرض کیا کہ ’’ما ذکر طلاقا‘‘ یعنی میرے شوہر نے طلاق کا نام بھی نہیں لیا، پھر طلاق کیسے ہوگئی؟ اور ایک روایت میں ہے کہ حضرت خولہؓ نے حق تعالیٰ سے فریاد کی کہ مولا! میں تجھ سے اپنا شکوہ بیان کرتی ہوں اور ایک روایت میں ہے کہ آپؐ نے خولہؓ سے فرمایا کہ ’’ما امرت فی شانک بشی حتی الآن‘‘ یعنی ابھی تک تمہارے مسئلے کے متعلق مجھ پر کوئی حکم نازل نہیں ہوا۔ (ان سب روایات میں کوئی تضاد اور تعارض نہیں، سبھی اقول صحیح ہو سکتے ہیں) اس پر یہ آیتیں نازل ہوئیں۔ (کذا فی الدر المنثور و ابن کثیر) اس لئے اس سورت کے شروع کی آیات میں اس خاص مسئلے کا جس کا نام ظہار ہے، حکم شرعی بیان فرمایا گیا۔ جس میں حق تعالیٰ نے حضرت خولہؓ کی فریاد سنی اور ان کے لئے آسانی فرما دی۔ ان کی وجہ سے حق تعالیٰ نے قرآن میں یہ مستقل احکام نازل فرما دیئے، اس لئے حضرات صحابہ کرامؓ حضرت خولہؓ کا بڑا احترام کرتے تھے۔ ایک روز سیدنا فاروق اعظمؓ ایک مجمع کے ساتھ چلے جا رہے تھے، یہ خاتون خولہؓ سامنے آکر کھڑی ہوگئیں۔ کچھ کہنا چاہتی تھیں۔ حضرت عمرؓ نے راستے میں ٹھہر کر ان کی بات سنی۔ بعض لوگوں نے کہا کہ آپ نے اس بڑھیا کی خاطر اتنے بڑے مجمع کو روکے رکھا؟ تو آپؓ نے فرمایا کہ خبر ہے، یہ کون ہے؟ یہ وہی خاتون ہے، جس کی بات حق تعالیٰ نے سات آسمانوں کے اوپر سنی، میں کون تھا کہ ان کی بات کو ٹال دیتا، بخدا اگر یہ خود ہی رخصت نہ ہو جاتیں تو میں رات تک ان کے ساتھ یہی کھڑا رہتا۔ (ابن کثیر) (جاری ہے)
٭٭٭٭٭