مچھر کا مقدمہ:
ایک مچھر نے حضرت سلیمانؑ کے دربار میں آکر فریاد کی ’’اے وہ ذات گرامی جس کی سلطنت جن و انس اور ہوا پر ہے تو جن و انس کے جھگڑوں کا فیصلہ کرتا ہے۔ ہوا میں اڑنے والے پرندے اور دریا میں تیرنے والی مچھلیاں سب تیرے انصاف کی تعریف میں رطب اللسان ہیں۔ اب ہماری مشکل بھی آسان کر، ہم بہت تکلیف میں ہیں۔ صرف ہماری جنس ہی انصاف سے محروم چلی آرہی ہے۔‘‘
حضرت سلیمانؑ نے مچھر کی یہ درد بھری فریاد سن کر کہا: ’’اے انصاف ڈھونڈنے والے، تو کس سے اپنا انصاف چاہتا ہے؟ وہ کون ظالم ہے؟ جس نے ازارہ غرور تجھے ستایا؟‘‘
مچھر نے عرض کیا: ’’اے سلیمانؑ ہوا کے ہاتھوں بڑی مصیبت میں ہیں۔ وہ دونوں ہاتھوں سے ہم پر ظلم کرنے والی ہے۔‘‘ حضرت سلیمانؑ نے فرمایا: ’’اے مچھر مجھے خدا نے حکم دیا ہے کہ کوئی فیصلہ اس وقت تک نہ کروں جب تک دونوں فریق حاضر نہ ہوں۔‘‘
اس کے بعد آپؑ نے ہوا کو حکم دیا کہ ’’جلد حاضر ہو۔ مچھر نے تیرے خلاف ہماری عدالت میں دعویٰ دائر کیا ہے۔ اپنے مدعی کے برابر آ اور اپنی صفائی میں جو کچھ کہنا چاہتی ہے کہہ۔‘‘ ہوا حکم سنتے ہی فراٹے بھرتی ہوئی آئی اور حضرت سلیمانؑ کے روبرو حاضر ہوگئی۔ مچھر اس ہوا کی تیزی سے راہ فرار پر بے اختیار مجبور ہوگیا۔ مچھر کا دم گھٹنے لگا۔ اس میں ٹھہرنے کی تاب ہی کہاں تھی۔ فوراً بھاگ نکلا۔
حضرت سلیمانؑ نے فرمایا ’’اے مچھر ٹھہر جا۔ تو کہاں جاتا ہے، تاکہ میں دونوں کا فیصلہ کروں، ذرا رک تو سہی، تیرے مخالف فریق کی بات بھی سن لوں۔‘‘ مچھر نے بھاگتے ہوئے کہا: ’’اے بادشاہ! میری موت ہوا ہی کے وجود سے ہے۔ اس کے دھویں سے تو میرا دن سیاہ ہو جاتا ہے۔ اس کے ہوتے ہوئے میں قرار نہیں پا سکتا۔ میری جگہ سے مجھ کو اکھاڑ پھینکتی ہے، اسے دیکھتے ہی میری آدھی جان نکل جاتی ہے۔‘‘
یہاں مولانا رومیؒ صالحین کو تعلیم فرماتے ہیں کہ یہی کیفیت حق تعالیٰ کے ڈھونڈنے والے کی ہوتی ہے۔ جہاں حق جلوہ نما ہوتا ہے، ڈھونڈنے والا وہاں سے غائب ہوتا ہے۔ اگر نفس زندہ ہے اور تکبر سے پر ہے، تو اس انانیت کے ساتھ قرب خدا نا ممکن ہے۔ اس انا کو فنا کرنا ہوگا۔ قرب خداوندی کے حصول میں بقا ہی بقا ہے۔ اپنی مرضی کو مرضی الٰہیہ کے تابع اور غلام بنا دے۔
درس حیات:
حق تعالی کو ڈھونڈنے والے کی کیفیت بعینہٖ ایسی ہے جہاں حق جلوہ نما ہو، وہاں ڈھونڈنے والا غائب۔ حق تعالی کا جمال ہمیشگی کیلئے ہے۔ بقایا ہر شے فانی ہے۔
مور اور اس کے پر:
ایک حکیم جنگل میں گھوم پھر رہا تھا۔ سرسبز و شاداب جگہ میں اس نے ایک مور کو دیکھا۔ مور اپنے خوبصورت پروں کو اکھیڑ رہا تھا۔ حکیم کو یہ ماجرا دیکھ کر بڑی حیرت ہوئی۔ وہ مور کے قریب گیا اور کہنے لگا ’’اے طائوس! کیا تیرے حواس جاتے رہے کہ اتنے حسین اور خوبصورت پروں کو اس بے دردی سے اکھیڑ رہا ہے، کیا تجھے یہ احساس نہیں کہ تیرا ایک ایک پر لوگ کس ذوق و شوق سے سنبھال کر رکھتے ہیں۔ نشانی کے طور پر یہ مصحف پاک کے اوراق میں رکھے جاتے ہیں۔ پھر تیرے نازک پروں کی پنکھیاں بنائی جاتی ہیں۔ ارے حیوان! تیرا خالق کون ہے؟ کس نے تیرے بدن پر یہ بے شمار نقش و نگار بنائے ہیں؟ کیا تو اس مصور کو بھول گیا ہے، جس نے اپنی مصوری کے لئے تجھے منتخب کیا ہے؟ معلوم ہوتا ہے تو غرور میں آکر اپنی کوئی وضع قطع بنانے کے درپے ہے۔‘‘
مور نے دانشور کے جب یہ کلمات سنے تو بے چین سا ہو کر رونے لگا۔ اس کے رونے میں ایسا درد اور ایسا اثر تھا کہ وہ حکیم جس نے مور سے پر اکھیڑنے کا سبب پوچھا تھا، نادم اور پریشان ہو کر دل میں کہنے لگا، میں نے ناحق اس مور کو چھیڑا۔ پتا نہیں یہ کس پریشانی میں گھرا ہوا تھا۔
کاش! وہ حکیم جان سکتا کہ مور کے ایک ایک آنسو میں کیا راز پوشیدہ ہے۔ اسے ان آنسوؤں کی کیا قدر۔ طاؤس نے کہا ’’اے نادان! افسوس ہے تیری عقل و بصیرت پر کہ ابھی تک تو طلسم رنگ و بو میں گرفتار ہے۔ الٹا مجھے پر اکھیڑنے پر مطعون کرتا ہے اور مجھے ہی ملزم ٹھہرا رہا ہے۔ کیا تو نہیں جانتا کہ ہر طرف سے سینکڑوں بلائیں انہیں بازوؤں کے لئے میری طرف آتی ہیں۔ ظالم شکاری انہیں پروں کے لئے ہر طرف جال بچھاتا ہے۔ کتنے ہی سنگ دل تیر انداز ہیں، جو انہی پروں کی خاطر میری جان ناتواں سے کھیلتے ہیں۔ ایسی ناگہانی آفتوں، ایسی بلاؤں اور ایسی المناک موت سے اپنے آپ کو بچائے رکھنے کی مجھ میں طاقت نہیں ہے۔ اس لئے یہی راستہ نظر آیا کہ ان بلائے جان پروں کو اکھیڑ دوں اور اپنی صورت کو مکروہ بنالوں تاکہ پہاڑوں اور میدانوں میں بے فکر ہو جاؤں۔‘‘
نزد من جان بہتر ازبال و پرست
جان یماند باقی وتن ابتر ست
میرے نزدیک جان کی حفاظت بال و پر کی حفاظت سے زیادہ ضروری اور اہم ہے۔ جان تو محفوظ رہے جسم کی ابتری کا جان کے مقابلے میں کیا غم۔
خویش رار نجور ساز و زار زار
تاترا بیروں کند از اشتہار
درس حیات:
اپنے آپ کو بے نام و نشان اور عاجز و مسکین بنا کر رکھو تاکہ شہرت سے یہ حالت تم کو دور رکھے۔ کیوں کہ شہرت سے گوشۂ عافیت چھن جاتا ہے اور شہرت بہت سی بلائیں اپنے ساتھ لاتی ہے۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭