نسل انسانی اپنی تاریخ کے بد ترین دور سے گزر رہی تھی، جہالت، ظلم و جبر، بت پرستی، جھوٹے خدائوں کی پرستش، طاقت ور کا کمزوروں پر ظلم، محبت پیار اخوت رواداری ماضی کے قصے ہو گئے تھے، عرب کے ریگستانوں سے نور اسلام کا چشمہ پھوٹا، اسلام کا سورج اِس شان سے طلوع ہوا کہ دیکھتے ہی دیکھتے نور اسلام کی کرنوں نے دھرتی کے زیادہ تر حصے کی تاریکی مٹا کر نور اسلام کے اجالے کو چاروں طرف پھیلا دیا۔
ماہ و سال گزرتے چلے گئے، اپنے وقت کے ہیوی سپر پاور ایران اور روم اہل اسلام کے ہاتھوں شکست فاش کے بعد قصہ پارینہ بن چکی تھیں، وقت کا بے راس گھوڑا چلتا رہا، برسوں پر برس، صدیوں پر صدیاں گزرتی چلی گئیں، ہر گزرتے دن سال اور صدی کے بعد اسلام کی پر شکوہ عمارت پہلے سے زیادہ طاقتور چمک دار اور مضبوط ہو تی چلی گئی، مسلمان مجاہدوں کے گھوڑوں کی ٹاپوں سے دنیا کا چپہ چپہ لرزتا رہا، مسلمانوں کے لشکر جدھر بھی گئے، فتح کی دیوی نے آگے بڑھ کر قدموں کو چوما، پھر مسلمان تاریخ عالم کی اسکرین پر ناقابل شکست قوم کے طور پر ابھرتے چلے گئے، پھر کرئہ ارض پر مسلمانوں کی فتوحات کے جھنڈے لہراتے چلے گئے۔
جب فتوحات کا دائرہ بڑھتا چلا گیا تو مال غنیمت میں دنیا جہاں کی دولت کے ذخائر بھی ہاتھ لگے، دولت آئی تو جہادی جذبے پر عیاشی، سہل پسندی کا رنگ غالب آنے لگا، پھر دنیا کی تاریخ پر منگولیا سے چنگیز خان کا پوتا ہلاکو خان سفاک چالاک طاقتور لشکر جرار کے ساتھ اٹھتا ہے، آندھی طوفان کی طرح بغداد شہر کے مسلمانوں کے دارالخلافہ پر قیامت بن کر ٹو ٹ پڑتا ہے، اہل بغداد موسیقی عیاشی شراب نوشی کے نشے میں دھت دنیا مافیہا سے بے خبر کہ ہلاکو خان آسمانی عذاب کی صورت میں اہل بغداد پر نازل ہوگیا۔
وہ سرحدی محافظوں کو روندتا ہوا بغداد شہر میں داخل ہو گیا، ہر طرف فتنہ فساد، قتل و غارت کا بازار گرم تھا، مسلمان عرصہ دراز پہلے ہی اپنے ہتھیاروں کو دفن کر چکے تھے، وحشی سفاک تاتاریوں نے شاہی محلات اور شاہی کتب خانوں کو آگ لگا دی، مسلمانوں کو سزا دینے کے لیے لاکھوں مسلمانوں کے سر گردنوں سے کاٹ کر مینار بنائے گئے، انسانوں کو کیڑے مکوڑوں کی طرح پائوں تلے تاتاری مسل رہے تھے، بغداد شہر کی اینٹ سے اینٹ بجا کر اب وحشی درندوں کا یہ لشکر ہلاکو خان کی زیر نگرانی نیشا پور کی طرف بڑھ رہا تھا۔
اِسی دوران یہ خبر آئی کہ اولیائے کرام کے سرخیل حضرت شیخ نجم الدین کبریؒ نے تاتاریوں سے لڑتے ہوئے شہادت کا جام پی لیا ہے۔ یہ خبر گھروں میں دبکے ہوئے مسلمانوں کے لیے موت کا پیغام تھی کہ آپ جیسے بزرگ بھی تاتاریوں کی وحشت کی نذر ہو گئے، کیونکہ حضرت شیخ نجم الدین کبریؒ وہ بزرگ تھے، جن کی دعائیں بارگاہ الٰہی میں فوری قبول ہو جایا کرتی تھیں، ابھی مسلمان اِس خبر سے نہیں سنبھلے تھے کہ ایک اور روحوں کو ادھیڑنے والی خبر آگئی کہ حضرت شیخ فرید الدین عطارؒ جیسے ولی بھی تاتاریوں کے خلاف لڑتے ہو ئے شہادت کے مرتبے پر فائز ہو گئے۔
آپؒ کی شہادت نے آخری امید کی کرن کو بھی بجھا دیا، روحانیت کے اِس روشن ترین سورج کے غروب ہونے سے مسلمانوں کی رہی سہی امیدیں بھی دم توڑ گئیں، فتنہ تاتار سے ظلم و ستم کی سیاہ رات اور بھی تاریک ہو گئی، تاتاری وحشی درندوں کی طرح مسلمانوں کے علاقوں کو تباہ و برباد کرتے، فصلوں کو اجاڑتے، عورتوں کو جنسی ہوس کا نشانہ اور مردوں کو قتل و غارت کے بعد نشان عبرت بناتے ہوئے مختلف شہروں کو روندتے اجاڑتے خونی سیلاب کی طرح آگے بڑھتے چلے جا رہے تھے۔
ہلاکو خان کے مختلف لشکر مختلف شہروں پر قیامت بن کر ٹوٹ رہے تھے، ایسا ہی وحشی درندوں پر مشتمل ایک لشکر سالار بیجو خان کی نگرانی میں شہر قونیہ کی طرف بڑھ رہا تھا۔ درندوں کے لشکر نے جا کر شہر قو نیہ کا مکمل محاصرہ کر لیا۔‘ محاصر ے نے جب طوالت اختیار کی تو قونیہ کے باشندے آپس میں بیٹھ کر مشورے کر نے لگے کہ وحشی درندوں نے ہمارا گھیرا ئو کیا ہوا ہے، ان سے نجات کا راستہ کیا ہے، کسی نے مشورہ دیا کہ بیجو خان سے صلح کی بات کی جائے تو فوراً لو گ بولے ہلاکو خان مسلمانوں کے خون کا پیاسا ہے، جو سر عام کہتا ہے کہ میں خدا کا عذاب ہوں، جو مسلمانوں پر نازل ہو گیا ہوں، اِس لیے تاتاریوں سے کسی بھی خیر بھلائی کی توقع رکھنا بے وقوفی کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭