عباس ثاقب
میں ان ممکنہ سوالات کے اطمینان بخش جوابات اپنے ذہن میں سوچتا رہا، جو ڈاکٹر چوہان مجھ سے پوچھ سکتے تھے۔ میں نے اس منصوبے پر پیش قدمی کا سوچتے ہوئے خود کو ظہیر کی جگہ رکھ کر کشمیر میں ہندوستانی فوج کے خلاف کارروائیوں کے حوالے سے اس کی بیان کردہ تمام معلومات کی بنیاد پر ڈاکٹر چوہان سے گفتگو کا فیصلہ کیا تھا۔ لیکن مجھے احساس تھا کہ کسی ایسے مقام کے بارے میں قطعیت سے بات کرتے ہوئے کسی بھی وقت پول کھل سکتا ہے، جہاں آپ نے زندگی میں کبھی قدم بھی نہ رکھا ہو۔ اپنی طرف سے ہر ممکن ذہن لڑانے کے باوجود میں اپنے آپ کو پوری طرح مطمئن نہیں کر پا رہا تھا۔
امر دیپ اور بشن دیپ نے جوکچھ بتایا تھا، اس کی روشنی میں ڈاکٹر چوہان انتہائی ذہین اور جہاں دیدہ انسان تھا۔ تبھی تو وہ اب تک نہرو سرکار کی نظروں میں آنے اور آزاد خالصتان کے لیے کوشاں سکھوں کی گردن دبوچنے کے لیے ہندوستان بھر میں متحرک خفیہ پولیس کے شکنجے میں جکڑے جانے سے محفوظ تھا۔ وہ یقیناً حد درجہ محتاط اور شکی بھی ہوگا۔ وہ اتنی آسانی سے میرا بیان سچ تسلیم نہیں کرے گا۔ اور اگر وہ ایک بار میری طرف سے بدگمان ہوگیا تو سب کچھ مٹی میں مل جائے گا۔
سوچتے سوچتے رات کا تیسرا پہر اپنے اختتام کی طرف گامزن ہوگیا۔ بالآخر میں نے معاملے کو اللہ رب العزت کی مرضی پر چھوڑتے ہوئے خود کو نیند کے حوالے کر دیا۔ بہت دیرسے سونے کے باوجود حسبِ عادت صبح جلدی میری آنکھ کھل گئی۔ میں غسل خانے سے باہر نکلا تو نیرج کو ناشتے سمیت اپنا منتظر پایا۔ اس نے بتایا کہ وہ کچھ دیر پہلے چکر لگاکر جاچکا ہے۔ اس وقت میں غسل خانے میں داخل ہو رہا تھا۔ میں ابھی ناشتا کر ہی رہا تھا کہ امر دیپ بھی آگیا۔ اس نے آتے ہی نیرج کو ایک کام بتاکر وہاں سے ٹال دیا۔
امر دیپ نے میرے سامنے بیٹھتے ہوئے کہا۔ ’’اچھا ہوا تم جلدی جاگ گئے۔ ناشتے سے فارغ ہوجاؤ، پھر ہم دونوں ٹیلی فون پر ڈاکٹر چوہان سے بات کرتے ہیں۔ اس وقت تک وہ ٹانڈا میں اپنے گھر سے ہوشیار پور میں واقع اپنے ڈینٹل کلینک تو پہنچ چکے ہوں گے۔ لیکن انہوں نے بتایا تھا کہ صبح سویرے ان کے پاس ایک آدھ ہی مریض آتا ہے، لہٰذا بے فکری سے بات ہو سکے گی۔ دوپہر تک تو مریضوں کی بھرمار ہوجاتی ہے‘‘۔
میں نے کہا۔ ’’یہ تو بہت اچھی بات ہے۔ میں تو سمجھا تھا آپ اکیلے بات کرکے ان کی مرضی معلوم کریں گے‘‘۔
امر دیپ دیپ نے ہلکا سا قہقہہ لگاکر کہا۔ ’’بھائی، اصل بات تو آپ ہی کو کرنی ہے۔ ہم تو صرف رابطہ کروا رہے ہیں‘‘۔
میں نے گزشتہ رات کے برعکس اس کے لہجے میں اندیشوں کی پرچھائیں نہ پاکر اطمینان کا سانس لیا۔ حقیقت یہ ہے کہ ان دونوں بھائیوں کو اپنے مفاد کے لیے جھوٹ بولنے اور ان کے لیے انتہائی محترم ڈاکٹر چوہان کو فریب دینے پر مجبور کرنے پر مجھے دل ہی دل میں گہری شرمندگی محسوس ہو رہی تھی۔ کاش میں کوئی متبادل راستہ ڈھونڈ پاتا۔
تبھی مجھے ایک خیال آیا۔ میں نے امر دیپ سے پوچھا۔ ’’بھائی یہ تو بتاؤ، آپ کا ٹیلی فون گھر میں کہاں رکھا ہے؟ میرا مطلب ہے ہماری باتیں کسی غیر متعلقہ فرد کے کانوں میں پڑنے کا خطرہ تو نہیں ہے؟‘‘۔
امر دیپ نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ’’بھائی یہ انگلستان نہیں ہے، نہ ہی دلّی یا بمبئی۔ ہم تو کھیتوں کے بیچ بیٹھے ہیں۔ ہمارے گھر ٹیلی فون کہاں سے آگیا بہادر بھائی؟ ہمارے گھر تو کیا، چھاجلی میں بھی ابھی ٹیلی فون لائن نہیں پہنچی۔ ہمیں لہرا گاگا قصبے جاکے تار گھر سے فون کرنا پڑے گا‘‘۔
یہ سن کر مجھے اپنے آپ پر ہنسی آئی۔ یہ بالکل سامنے کی بات میری عقل میں کیوں نہیں آسکی۔ ابھی تو بڑے شہروں میں بھی سرکاری دفتروں کے علاوہ صرف امیر و کبیر لوگ ہی ٹیلی فون جیسی جدید سہولت سے استفادہ کر سکتے ہیں۔ وہ بھی جب کسی دوسرے شہر ٹیلی فون کال کرتے ہیں تو انییں آپریٹر کے ذریعے نمبر ملواتے ہیں۔ جیسے کہ بمبئی کا وہ آوارہ مزاج سرکاری کارندہ سچن اپنے سسرال کا نمبر ملوایا کرتا تھا۔
سچن کے آپریٹر کو نمبر دینے کا احوال یاد آتے ہی مجھے ایک خطرے کا ادراک ہوا اور میں نے پوچھا۔ ’’امر دیپ بھائی، آپریٹر کے ذریعے نمبر ملواکر ڈاکٹر چوہان سے اتنے حساس موضوع پر بات کرنا خطرناک تو نہیں ہوگا؟ میرا مطلب ہے ہو سکتا ہے ہماری باتیں ٹیلی فون کا نمبر ڈائل کرنے والے کے کانوں میں پڑجائیں اور وہ مشکوک ہوکر ہماری مخبری کردے۔ وہ نہ سہی، لیکن مجھے یقین ہے کہ ہوشیار پور کے نمبر سے کال ملوانے والا آپریٹر تو یقیناً باآسانی ہماری باتیں سن سکتا ہے‘‘۔
میری بات سن کر امر دیپ چونکا۔ میں نے اس کی پیشانی پر غور و فکر کی لکیریں ابھرتی دیکھیں۔ اس نے تشویش بھرے لہجے میں کہا۔ ’’یار اس بارے میں تو میں نے سوچا ہی نہیں۔ ہماری باتوں میں ملاقات کے وقت کے ساتھ شایدگردوارہ ہرمندر صاحب (گولڈن ٹیمپل) کا بھی ذکر آجائے۔ یہ معاملہ تو خطرناک ثابت ہو سکتا ہے‘‘۔
میں نے کہا۔ ’’اگر ہم کسی بڑے شہر میں ہوتے تو شاید یہ اتنی خطرے والی بات نہیں ہوتی۔ لیکن آپ کی نشان دہی کے بعد مجھے احساس ہورہا ہے کہ چھوٹے قصبوں اور پنڈوں میں صورتِ حال کتنی مختلف ہے۔ ایسے علاقوں کے باسیوں کے وقت کی کوئی کمی نہیں ہوتی۔ جبکہ ان کی زندگیوں میں دلچسپیوں کا فقدان ہوتا ہے ، لہٰذا وہ کسی بھی نئی بات یا معاملے کا غیر ضروری توجہ سے مشاہدہ کرتے ہیں اور کسی بھی غیر معمولی صورتِحال کا ڈھنڈورا پیٹنے کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتے‘‘۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭