ترتیب و پیشکش
ڈاکٹر فرمان فتحپوری
دلگیر کا اضطراب شباب کو پہنچ چکا تھا۔ انہوں نے اپنے پچھلے خط مرقومہ 14 اپریل کے ساتھ قمر زمانی کو نقاد کا پرچہ بھیجا تھا۔ صرف دو دن انتظار کر سکے۔ 16 مارچ کو پھر ایک خط اس طور پر لکھا:
16 اپریل 17ء
ماہ التفات
روحی فداک، خدا جانے کیا بات ہے کہ آپ کے خط کا جواب 14 کو لکھنے کے بعد سے خود بخود جی بھر آتا ہے۔ روتا ہوں مگر تسکین نہیں ہوتی۔ ہائے یہ مجھ کو کیا ہوگیا۔
جان بربادِ کرم سے دل تباہِ التفات
کل کی رات جس کی صبح کو یہ خط لکھ رہا ہوں آنکھوں میں کٹ گئی۔
’’چاند یہاں بھی نظر نہ آیا‘‘
اپنی حسرت کی داد کس سے لوں
نہ معلوم کیوں رات نیند نہ آئی۔ مر مر کے صبح ہوئی۔ بس وہی افسردہ کلی پیش نظر تھی جس نے آپ کے دھڑکتے ہوئے سینہ پر ایک رات بسر کی تھی۔ رہ رہ کر خیال آتا تھا۔
’’مجھ سے تو وہی کلی اچھی‘‘
اس خیال سے کلیجہ میں ہوک اٹھی۔ دل کی بے تابی بڑھی اور یہ نالے خود بخود موزوں ہوگئے۔ افسوس جن کی داد دینے والا بھی یہاں موجود نہیں۔ آپ کے پاس اصلاح کی غرض سے بھیجتا ہوں۔ خدا کے لئے کہیں ان پر اپنا نازک قلم لگا دینا آبرو بڑھ جائے گی۔
جی نہیں چاہتا ختم کروں، مگر سمع خراشی آکر کہاں تک کیجئے۔ آداب، اب جاتے ہیں۔
ہلاک آرزو
’’دلگیر‘‘
ان دنوں دل کی بے تابی کا یہ عالم ہو رہا تھا کہ دلگیر سے صبر و ضبط کا دامن چھوٹا جارہا تھا۔ وہ دل کو لاکھ سنبھالتے، مگر قابو میں نہ آتا۔ قمر زمانی کی محبت نے انہیں دیوانہ بنا رکھا تھا۔ قمر زمانی ان کے خط کا جواب دیں یا نہ دیں، وہ برابر انہیں لکھے جارہے تھے۔ چنانچہ 16 اپریل کے خط کے بعد انہوں نے دوسرے دن 17 اپریل کو بھی ایک خط قمر زمانی کو لکھا۔ یہ خط بھی خاصا طویل ہے اور ایک ایک لفظ سے دلگیر کی طبیعت کا اضطراب نمایاں ہے۔
خط دیکھئے:
17 اپریل 17ء
تمنا کو تم اپنی منع کر دو… ہماری جان کے پیچھے پڑی ہے۔
آج، ہاں آج، غالب توقع تھی، پوری امید تھی کہ آپ کا مسیحا نامہ ملے گا۔ لیکن آہ نہ ملا۔ کیا بتاؤں غم نصیب جی پر کیا گزر گئی۔ ہائے! خدا کسی کو امیدوار نہ کرے۔
خط کا جواب نہ سہی، کم سے کم نقاد کی رسید فوراً دینی تھی۔ پرسوں رات سے برا حال ہے۔ خبر نہیں کیوں۔ کل کی رات بھی جیسی گزری، الامان۔ بیان کر کے آپ کو آرزدہ کرنا نہیں چاہتا…۔ ہاتھوں پہ یہ ساری رات دل ناصبو تھا…۔ یہ اضطراب شبی میں یہ شعر اور ہوگئے جو بہ نظر اصلاح بھیجتا ہوں۔
یاد ایام کہ مر مر کے کٹی، ہجر کی شب
جو گزر جائے کسی پر وہی حال اچھا ہے
گونہ آئے مری بالیں پہ دم نزع یہاں
خیر پوچھا تو سہی تم نے کہ حال اچھا ہے
نہ خوشی جینے کی مجھ کو نہ ہے مرجانے کا غم
آپ جس حال میں رکھیں وہی حال اچھا ہے
لکھی دلگیر نے خاطر سے قمر کی یہ غزل
اس کو جو حال پسند آئے وہ حال اچھا ہے
پہلے مقطع میں صرف آپ کے لئے یہ ترمیم کردی ہے۔
وہی اچھا ہے کہ ہے جس میں قمر کی مرضی
ہجر اچھا ہے نہ دلگیر وصال اچھا ہے
رات تو یوں ہی گزر جاتی ہے اور دن بھر وہ کلی دیکھتا رہتا ہوں جسے آپ نے کاغذی پیرہن دے کر حیات ابدی بخش دی ہے۔ اس غریب کی دل گرفتگی و دلگیری کو دیکھ کر طبیعت بے قابو ہوجاتی ہے۔ بے اختیار رو دیتا ہوں۔ سارے آنسو کلی پر گرتے ہیں جن کی نمی شاید اسے کبھی شگفتہ و شاداب کرسکے۔
کیا کوئی ایسی صورت نہیں کہ میں بریلی حاضر ہوکر ایک نظر آپ کو دیکھ لوں۔ خدا کے لئے صاف صاف لکھو بے چین ہوں۔ آگرہ تو آپ کیوں آنے لگیں۔ کیا آپ کی کوئی تصویر ہے۔ ہو تو اسی کو بھیج دیجئے۔ غم غلط ہوجائے گا۔ اچھا یہ بھی نہ سہی۔ اپنا رومال ہی میرے آنسو پوچھنے کے لئے بھیج دیجئے۔ ابھی ابھی ایک ہچکی آئی، شاید آپ نے یاد کیا، ہائے۔
اتنا نہیں کوئی آنسو پوچھے
کیا روؤں کوئی آنسو پوچھے
’’حسن‘‘ کا بے صبر و شوق کے ساتھ منتظر ہوں۔ خدا جانے کس قیامت کا ہوگا (کہہ دیجئے کسے خبر ہے) شاید میں اس آئینے میں آپ کو دیکھ سکوں، جس کی بڑی تمنا ہے۔ فرصت ہو اور جی بھی چاہے تو ’’مہندی‘‘ یا اتری ہوئی ’’مہندی‘‘ پر کچھ لکھ ڈالئے کہ یہ آپ کا حصہ ہے۔ جان دینے کے لئے میں حاضر ہوں۔
تو مشق ناز کر خونِ دو عالم میری گردن پر دل سے تمہارا’’دلگیر‘‘ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭