اے اعظمی
وینزویلا کے صدر میدورو کو ہٹانے کیلئے امریکا کی جانب سے کھیلے جانے والے ’’گیم‘‘کی اصل کہانی منظر عام پر آگئی۔ وینزویلا کے صدر نکولس میدورو کو ہٹانے کا مقصد بینک آف انگلینڈ میں جمع کیا جانے والا وینزویلا کا اربوں ڈالرز کا سونا ہڑپ کرنا ہے، جو آج بھی بینک آف انگلینڈ کے پاس قانونی اعتبار سے موجود ہے۔ لیکن جب میدورو کی جانب سے یہ سونا بینک آف انگلینڈ سے طلب کیا گیا تو شاطر بینک نے انکار کردیا اور دعویٰ کیا کہ وہ اس سونے کو ادا کرنے کا پابند ہے لیکن ایک قانونی صدر کی نگرانی میں بنائی جانے والی حکومت کو ہی یہ سونا واپس کیا جا سکتا ہے۔ اور اس وقت چونکہ وینزویلا کے صدر میدورو متنازع ہوچکے ہیں اور ملک میں ان کیخلاف مزاحمت پائی جاتی ہے۔ اس لئے ان کی جانب سے مطالبہ درست نہیں۔ بینک آف انگلینڈ کی جانب سے وینزویلا کی موجودہ حکومت کو سونے کی طلبی کے بعد بھجوائے جانے والے پیغام میں تجویز دی گئی ہے کہ جتنی جلد موجودہ صدر میدورو کو اقتدار سے ہٹایا جائے گا اتنی ہی جلد بینک آف انگلینڈ وینزویلا کی قانونی (امریکی حمایت یافتہ)حکومت کو سونے کی ادائیگی کردے گا۔ امریکا میں مقیم برطانوی تجزیہ نگار جان ڈیلاس نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ امریکا وینزویلا کے تیل کی دولت پر اپنے حمایتی صدر کی مدد سے قبضہ چاہتا ہے۔ آنے والے دنوں میں اس حوالے سے امریکی خواہش مزید کھل کر سامنے آجائے گی۔ وینزویلا تیل کی دولت سے مالا مال ہے اور اس وقت بھی امریکی کمپنیاں وینزویلا کا تیل خرید رہی ہیں۔ ٹیکساس میں وینزویلا کی حکومتی تیل کمپنی PDVSA کی اپنی کئی ایک ریفائنریز موجود ہیں۔ ڈیلاس کا کہنا ہے کہ امریکا اگلے اقدامات کے طور پر وینزویلا کے صدر میدورو کی حکومت کو مفلوج بنانے کیلئے اس کی تیل کی فروخت پر پابندی عائد کرسکتا ہے اور موجودہ حکومت کو عالمی ادائیگیوں کے حصول سے باز رکھ سکتا ہے، جس کیلئے وہ یورپی یونین کے دوستوں کا ساتھ حاصل کرے گا۔ جبکہ پیش آمدہ ایام میں امریکی حکومت وینزویلا کے ان حکام اور عہدیداروں پر پابندیاں عائد کرسکتی ہے جو اس وقت امریکا مخالف میدورو کا ساتھ دے رہے ہیں۔ اس پورے منظر نامے میں علاقائی کھلاڑی کولمبیا، برازیل اورارجنٹائن بھی امریکا کا ساتھ دے رہے ہیں۔ اگر امریکا نے وینزویلا کی تیل کی فروخت پر پابندی لگائی تو اس سے عالمی سطح پر بڑے منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ برطانوی جریدے ڈیلی ایکسپریس نے بتایا ہے کہ امریکی حکومت اور سفارتی ذرائع سمیت انٹیلی جنس اور اتحادی ممالک جن میں فرانس، جرمنی، اسپین، برطانیہ، آسٹریلیا اور کینیڈا شامل ہیں، نے وینزویلا کے صدر مدورو کو قانونی صدر ماننے سے انکار کردیا ہے اور ان کے مخالف رہنما جان گوائیدو کو وینزویلا کا قانونی (نگراں) صدر تسلیم کرلیا ہے۔ اس سلسلہ میں ملک بھر میں شدید کشمکش پائی جاتی ہے اور ملکی سطح پر مظاہروں اور جوابی مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔ سیکورٹی اور افواج ہائی الرٹ ہیں، جبکہ متعدد عسکری و سیاسی ماہرین نے وینزویلا اور امریکا کے مابین جنگی جھڑپ کو خارج از امکان قرار نہیں دیا ہے۔ یورپی یونین نے صدر میدورو کو دھمکایا ہے کہ اگر ایک ہفتے کے اندر اندر دوبارہ الیکشن کا اعلان نہیں کیا جاتا تو وہ جان گوائیدو کو صدر تسلیم کرلیں گے۔ ادھر امریکا اور اس کے اتحادیوں کے مقابل روس، ترکی، ایران اور چین جیسے طاقتور ممالک نے جان گوائیدو کے بجائے میدورو کو ہی وینزویلا کا قانونی صدر تسلیم کیا ہے۔ عسکری محاذ پر متعدد سینئر فوجی کمانڈرز نے بھی وینزویلا کے صدر میدورو کی حمایت کی ہے اور ملکی بحران کو بات چیت کی مدد سے حل کرنے پر زور دیا ہے۔ وینزویلا کے صدر میدورو نے امریکی سفیروں کو ملک میں انارکی پھیلانے اور قانونی حکومت کیخلاف سازشوں کا مرتکب قرار دیتے ہوئے انہیں ملک سے نکل جانے کا حکم دیا ہے۔ لیکن امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے امریکی سفیروں کو نکالنے سے انکار کردیا ہے جس سے صورت حال دھماکا خیز ہوگئی ہے۔ امریکی میڈیا نے تسلیم کیا ہے کہ اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ عالمی دوست (یورپی) ممالک کے ساتھ مل کر کوشش کر رہا ہے کہ وینزویلا کے صدر میدورو کو عالمی سطح سے مالی مدد بند کی جائے اور ان کی مالیات کے فنڈز تک رسائی روکی جائے، جس کا مقصد ملکی سیاست پر ان کی گرفت ختم کرنا ہے۔
جبکہ امریکی حکام یہ بھی چاہتے ہیں کہ ان کے حمایت یافتہ خود ساختہ صدر جان گوائیدو کیلئے فنڈز بڑی مقدار میں مہیا کئے جائیں۔ برطانوی آ ن لائن جریدے بلوم برگ نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ امریکا اور اس کے اتحادی ممالک کی جانب سے وینزویلا میں صدر مدورو کی معزولی کی کوششوں پر روس نے الزام عائد کیا ہے کہ امریکا وینزویلا میں خانہ جنگی کروانا چاہتا ہے۔ جبکہ امریکا سمیت اس کے 20 اتحادی ممالک نے وینزویلا کے صدر میدورو کو دھمکی دی ہے کہ اگر وہ معزولی اختیار نہیں کریں گے اور امریکی حمایت یافتہ صدر کیلئے میدان خالی نہیں چھوڑیں گے تو ان کیخلاف سخت ایکشن لیا جائے گا۔ وینزویلا کے صدر میدورو کے قریبی ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ میدوورو کو ہٹانے کیلئے امریکا کی جانب سے پھیلائے جانیوالے جال کا اصل مقصد اس چھوٹے سے ملک کا قیمتی آٹھ بلین امریکی ڈالرز مالیت کا لاکھوں ٹن خالص سونا ہڑپ کرنا ہے، جو اس وقت بھی بینک آف انگلینڈ کے پاس موجود ہے۔ تازہ رپورٹ میں متحدہ عرب امارات کے جریدے دی نیشنل نے انکشاف کیا ہے کہ نومبر2018ء میں جب وینزویلا کے صدر میدورو کی جانب سے بینک آف انگلینڈ میں رکھوایا گیا سونا واپس طلب کیا گیا تو امریکا اور برطانیہ دونوں ’’دوستوں‘‘ کی نیت بدل گئی اور انہوں نے ایک سفارتی بحران کی مدد سے وینزویلا کے صدر کو معزول کرنے اور ان کی جگہ جان گوائیدو کو وینزویلا کا صدر بناکر اس ریاست کو امریکی شامل باجا بنانے کی پلاننگ کرلی۔ اب اس بحران میں ایک نیا اسکینڈل یہ بھی آیا ہے کہ بینک آف انگلینڈ نے وینزویلا کا سونا واپس کرنے سے منع کردیا ہے۔ امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ مائیک پومپیو اور نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر جان بولٹن سمیت نائب امریکی صدر مائیک پینس نے مل کر وینزویلا کے صدر مدورو کو حکومت سے کنارے ہوجانے کا مشورہ دیا ہے اور کہا ہے کہ امریکا ان کیخلاف سخت ایکشن لے گا۔ لیکن تینوں اہم شخصیات نے اس سخت ایکشن کی بابت کوئی تفصیلا ت بیان نہیں کی ہیں۔ امریکی جریدے نیو یارک پوسٹ نے بتایا ہے کہ امریکی محکمہ خزانہ کی بھرپور کوشش ہے کہ وینزویلا کے عالمی اثاثوں تک موجودہ امریکا مخالف صدر میدورو کی رسائی روک دی جائے اور عالمی حکومتیں بالخصوص یورپی حکومتیں امریکا مخالف میدورو کو کسی قسم کی کوئی ادائیگیاں نہ کریں۔ وینزویلا کے اس بحرانی منظر نامہ میں امریکا اور اس کے یورپی یونین کے اتحادیوں کا دوغلا چہرہ بھی سامنے آچکا ہے۔ کیونکہ ایک جانب یورپی ممالک وینزویلا میں ہونے والے انتخابات کو دھاندلی قرار دے کر موجودہ صدر میدورو کو قانونی صدر تسلیم کرنے سے انکار کر رہے ہیں۔ وہیں دوسری جانب یہی انہی ممالک نے بنگلہ دیش میں اپوزیشن کو مفلوج بنا کر غنڈہ گردی سے جیتے گئے الیکشن کو تسلیم کرلیا ہے اور حسینہ واجد کو ملک کا وزیر اعظم بھی مان لیا ہے۔ حالانکہ یورپی یونین کے مبصرین اور عالمی ماہرین بنگلہ دیشی الیکشن کو غیر منصفانہ اور غیر جانبدارانہ قرار دے چکے ہیں۔
٭٭٭٭٭