امت رپورٹ
کراچی میں تجاوزات کے نام پر چلائی جانے والی انہدامی مہم کے متاثرین نے سخت مزاحمت کا اعلان کیا ہے۔ دوسری جانب اس کمپین کا تعلق سندھ حکومت کے ’’کراچی نیبر ہڈ امپروومنٹ پروجیکٹ‘‘ سے بھی جا ملا ہے۔
کراچی میں دکانوں اور عمارتوں کو گرانے کی مہم کے حوالے سے میئر کراچی وسیم اختر کا دعویٰ تھا کہ سپریم کورٹ کے احکامات پر عمل کیا جارہا ہے۔ دوسری جانب کراچی کی گنجان آبادیاں شہری دہشت گردی کے قلع قمع میں رکاوٹ قرار دی گئیں۔ اور اب یہ معلوم ہوا ہے کہ کراچی کو ’’نیا چہرہ ‘‘ دینے سے متعلق سندھ حکومت کا منصوبہ بھی اس توڑ پھوڑ کا حصہ ہے۔ یہ پروجیکٹ ورلڈ بینک کے قرضے سے شروع کیا گیا۔
اس گورکھ دھندے کے پیچھے چاہے کوئی فلاسفی کارفرما ہو، لیکن اس کے نتیجے میں غریب کے سر سے چھت اور اس کا روزگار چھینا جارہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جیسے جیسے یہ مہم آگے بڑھ رہی ہے، متاثرین کا ردعمل شدید ہوتا جارہا ہے۔ اس حوالے سے لی مارکیٹ کے دکانداروں نے خود سوزی کی دھمکی دے دی ہے۔ جبکہ شادی ہال مالکان ایسوسی ایشن نے عدالت کا دروازہ بھی کھٹکھٹانے کا فیصلہ کیا ہے۔
لی مارکیٹ کے 1200 سے زائد دکانداروں کو اپنی دکانیں خالی کرنے کے لئے چھ روز کی مہلت دی گئی تھی، جو گزر چکی ہے۔ اب ان دکانداروں کو کسی بھی وقت اپنی دکانیں گرائے جانے کا خدشہ ہے، لہٰذا انہوں نے مزاحمت کی تیاری کرلی ہے۔ لی مارکیٹ تاجر اتحاد کے صدر شعیب بلوچ کا ’’امت ‘‘ سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ’’ہم سب کو نوٹسز دے کر ایک ہفتے کے اندر دکانیں خالی کرنے کا کہا گیا تھا، لیکن ہم نے اس ہدایت پر عمل نہیں کیا اور نہ ہی عمل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اگر زبردستی ہم سے دکانیں خالی کرانے کی کوشش کی گئی، تو پھر نہ صرف ہم خود کو آگ لگالیں گے، بلکہ اپنی دکانوں کو بھی جلادیں گے۔ اور جو کارروائی کے لئے آئے گا، اسے واپس نہیں جانے دیں گے۔ یہ ہم سب دکانداروں کا متفقہ فیصلہ ہے کہ ہمارے جیتے جی کوئی یہ دکانیں خالی نہیں کراسکتا۔ جاوید ناگوری نے صوبائی وزیر بلدیات سے ہماری ملاقات طے کرائی تھی، لیکن یہ ملاقات تاحال نہیں ہوسکی ہے‘‘۔ اس حوالے سے لی مارکیٹ تاجر اتحاد کے جنرل سیکریٹری نور محمد آفریدی نے بھی شدید غصے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ لوگ کسی طور پر بھی اپنی دکانیں نہیں گرنے دیں گے۔ کیونکہ یہی دکانیں سب کا واحد روزگار ہیں۔ ان دکانوں سے محروم ہونے کا مقصد سب کچھ دائو پر لگانا ہے، لہٰذا ان دکانوں کو بچانے کے لئے سب لوگ مزاحمت کے لئے تیار ہیں۔
لی مارکیٹ کے ایک دکاندار سعید خان اس سلسلے میں عدالت بھی چلے گئے ہیں۔ سعید خان نے بتایا کہ ہائی کورٹ میں دائر درخواست میں انہوں نے کہا ہے کہ نہ ان کی دکان کسی رفاہی پلاٹ پر بنی ہے اور نہ ہی نالے پر قائم ہے، لہٰذا کسی طور پر تجاوزات کے زمرے میں نہیں آتی۔ اس کے باوجود دکان گرانے کا نوٹس دیا گیا ہے۔ اس درخواست پر ہائی کورٹ نے کے ایم سی افسران کو جواب جمع کرانے کا حکم دیا ہے۔ لیکن تاحال کے ایم سی نے اپنا جواب جمع نہیں کرایا ہے۔ سعید خان کے بقول اگر سندھ حکومت، میئر کراچی یا کوئی اور قوت لی مارکیٹ والوں کو بھی ایمپریس مارکیٹ یا گارڈن کے دکاندار سمجھ رہی ہے تو یہ اس کی بھول ہے۔ لی مارکیٹ والے اپنی دکانیں بچانے کے لئے جان بھی دے دیں گے۔ خشک میوہ جات مارکیٹ کے دکاندار گل نبی خان کا کہنا تھا کہ وہ لی مارکیٹ میں کئی برس سے خشک میوہ جات فروخت کر رہا ہے۔ یہ اس کا سیزن ہے، لیکن سندھ حکومت اور میئر کراچی نے یہ سیزن بھی خطرے میں ڈال دیا ہے۔ آغا جان کھجور ڈیٹس کے ڈیلر حاجی نورالدین بھی اسی مارکیٹ میں کئی دہائیوں سے کھجور کے ہول سیل کا کاروبار کر رہے ہیں۔ ان کی کھجوریں پورے ملک میں سپلائی ہوتی ہیں۔ حاجی نور الدین کا کہنا تھا کہ ’’ہمارا روزگار چھین کر ہمارے بچوں کو فاقوں کا شکار کرنے کی سازش کی جارہی ہے۔ ایسا ہم نہیں ہونے دیں گے‘‘۔ لی مارکیٹ کے دکاندار قدرت اللہ کے بقول حکومت دوسرے شہروں سے آنے والے محنت کشوں سے ان کا روزگار چھیننے کی خواہش رکھتی ہے۔ لیکن یہ اس کی بھول ہے۔ کھجور بازار کی مرکزی جامع مسجد سیدنا علی معاویہ کے امام مفتی علی میمن نے کہا کہ ریاست اپنی رعایا کے لئے ماں کی حیثیت رکھتی ہے اور جب فرات کے کنارے پیاسے کتے کا معاملہ بھی حاکم وقت سے پوچھا جا سکتا ہے، تو ہزاروں افراد کو بھوک و افلاس میں مبتلا کرنے والوں کا بھی سخت حساب ہوگا۔ لی مارکیٹ کے سماجی کارکن مفتی نسیم ثاقب نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کراچی کے محنت کشوں کے ساتھ ظلم کیا جارہا ہے۔ غریبوں کا روزگار چھیننے سے بے روزگاری بڑھتی ہے اور ساتھ ہی جرائم بھی جنم لیتے ہیں۔
ادھر سندھ حکومت اگرچہ شادی ہال مالکان کو دیئے جانے والے نوٹسز واپس لینے کا اعلان کرچکی ہے۔ تاہم شادی ہال مالکان سمجھتے ہیں کہ یہ معاملہ ابھی ختم نہیں ہوا، لہٰذا وہ اس سلسلے میں عدالت جانے کی تیاری بھی کر رہے ہیں۔ ذرائع کے مطابق شادی ہال مالکان کی جانب سے ہڑتال کی دھمکی پر گھٹنے ٹیکنے والی سندھ حکومت نے نوٹسز جاری کرنے کو تکنیکی غلطی قرار دیا ہے۔ شادی ہال مالکان کے وفد سے ملاقات کرتے ہوئے صوبائی وزیر بلدیات سعید غنی نے یہ موقف اپنایا کہ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کی جانب سے شادی ہال مالکان کو جاری کئے جانے والے نوٹسز تکنیکی بنیادوں پر غلط تھے۔ کیونکہ اس قسم کے نوٹسز جاری کرتے وقت لوکل گورنمنٹ سیکریٹری سے منظوری لی جاتی ہے، جو سی بی سی اے کی جانب سے نہیں لی گئی۔ تاہم یہ بات حیران کن ہے کہ سندھ حکومت کے ماتحت ادارے نے اس کے علم میں لائے بغیر اتنا بڑا قدم کیسے اٹھالیا؟ جس سے حالات خراب ہونے کا خدشہ پیدا ہوگیا تھا۔ ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے شادی ہالز مالکان ایسوسی ایشن کے سیکریٹری جنرل خواجہ طارق نے تصدیق کی کہ ایسوسی ایشن اپنے دفاع کے لئے قانونی جنگ لڑنے کی تیاری بھی کر رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف ریویو پٹیشن دائر کرنے کا اعلان کیا ہے لیکن ایسوسی ایشن اپنے طور پر بھی اس کیس میں فریق بنے گی۔ اس سلسلے میں قانونی مشاورت کی جارہی ہے۔ اس سے قبل ایسوسی ایشن کے ممبر منیجنگ کمیٹی اور سیکریٹری اطلاعات محمد اشرف نے کہا تھا کہ فی الحال خطرہ ٹل گیا ہے، لیکن اس کے باوجود اگر بزور طاقت شادی ہال گرانے کی کوشش کی گئی تو اس کے نتیجے میں ہونے والی مزاحمت سے خون خرابہ ہوسکتا ہے۔
کراچی میں جاری توڑ پھوڑ کا تعلق سندھ حکومت کے منصوبے ’’کراچی نیبر ہڈ امپروومنٹ پروجیکٹ‘‘ سے بھی ہے۔ یہ پروجیکٹ قریباً دو برس پہلے شروع کیا گیا تھا۔ ذرائع کے مطابق اس سلسلے میں وزیر اعلیٰ سندھ کو بریفنگز بھی دی جاتی رہی ہیں، لیکن چونکہ اس وقت کسی کو یہ اندازہ نہیں تھا کہ اس پروجیکٹ کے نام پر کراچی اور بالخصوص پرانے شہر کی دکانوں اور عمارتوں کو گرایا جائے گا، لہٰذا کسی نے اس طرف توجہ نہیں دی تھی۔ اس پروجیکٹ کے ڈائریکٹر خیر محمد کلوڑ ہیں۔ منصوبے کی لاگت 98 ملین ڈالر ہے، جس میں سے 12 ملین ڈالر کی فنڈنگ سندھ حکومت کی جانب سے کی جائے گی۔ باقی اخراجات ورلڈ بینک کے قرضے سے پورے کئے جائیں گے۔ قرضے کے معاہدے پر سندھ حکومت اور ورلڈ بینک کی طرف سے دستخط کئے جاچکے ہیں۔ جبکہ’’کراچی نیبر ہڈ امپروومنٹ پروجیکٹ‘‘ کی منظوری قومی اقتصادی کونسل کی ایگزیکٹو کمیٹی کی جانب سے دی جاچکی ہے۔ اس پروجیکٹ کی تمام تفصیلات ورلڈ بینک کی ویب سائٹ پر موجود ہیں۔ اس حوالے سے سندھ حکومت کا کہنا ہے کہ اس نے مختصر اور طویل مدتی منصوبوں کے تحت کراچی کو ایک ’’خوبصورت شہر‘‘ میں تبدیل کرنے کا منصوبہ بنایا ہے، جس میں سڑکوں اور پارکوں کی حالت بہتر بنانا، پرانی عمارتوں کی بحالی اور مناسب ٹریفک مینجمنٹ سسٹم تیار کرنا شامل ہے۔ اس سلسلے میں ہونے والے اجلاسوں میں وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ پروجیکٹ کی تکمیل کے بعد کراچی کو ایک نیا چہرہ مل جائے گا، جس میں ورلڈ بینک صوبائی حکومت کی بھرپور مالی مدد کر رہا ہے۔ ورلڈ بینک کی ویب سائٹ کے مطابق پروجیکٹ کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ اول، شہر کے مرکزی علاقے صدر کی تجدید نو۔ دوئم، ملیر میں سڑکوں اور عوامی جگہوں کو بڑھانا۔ اور سوئم، کورنگی میں عوام اور ٹریفک کے لئے نقل وحرکت میں آسانی پیدا کرنا۔ ذرائع کے مطابق شہر میں تجاوزات کے خاتمے کے نام پر جاری توڑ پھوڑ اس منصوبے کا بھی ایک حصہ ہے۔ یوں کراچی کو ’’نیا چہرہ ‘‘ دینے کے نام پر لوگوں کو گھروں اور روزگار سے محروم کیا جارہا ہے۔
اس سلسلے میں موقف کے لئے صوبائی وزیر بلدیات سعید غنی سے کئی بار فون پر بات کرنے کی کوشش کی گئی، لیکن حسب سابق یہ رابطہ ممکن نہیں ہو سکا۔ ٭
٭٭٭٭٭