ڈاکٹر ابراہیم کا تاوان اہل خانہ نے بیرون ملک ادا کیا

مرزا عبدالقدوس
ڈاکٹر ابراہیم خلیل کی اننچاس دس بعد اپنے گھر واپسی پر ان کے اہل خانہ کافی خوش اور مطمئن ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ صوبائی انتظامیہ اور سرکاری اداروں کی کارکردگی اور اہلیت پر سے ابراہیم خلیل کے اہلخانہ اور بلوچستان بھر کے ڈاکٹروں کا اعتماد بھی اٹھ گیا ہے۔ کیونکہ صوبائی حکام اور سرکاری افسران انہیں مسلسل یہی بتاتے رہے کہ ڈاکٹر ابراہیم خلیل کے اغوا کار انہیں سرحد پار لے گئے ہیں اور ان کی بہ حفاظت واپسی کے لئے سرکاری ادارے کوشاں ہیں۔ لیکن اب حقیقت یہ سامنے آئی ہے کہ ڈاکٹر ابراہیم کو ان کے اغوا کار پہلے ہی دن کراچی لے گئے تھے، جہاں انہیں کسی بنگلے میں محبوس رکھا گیا۔ مغوی پر ذہنی و جسمانی تشدد بھی کیا گیا۔ ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ ڈاکٹر ابراہیم خلیل کی رہائی پانچ کروڑ روپے تاوان ادا کرنے کے بعد عمل میں آئی ہے۔ اور یہ بھاری رقم ذرائع کے بقول مغوی ڈاکٹر ابراہیم کی اہلیہ کے بھائی کی وساطت سے ایک بیرون ملک میں ادا کی گئی۔ جہاں مغوی کی اہلیہ کے بھائی بسلسلہ ملازمت موجود ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ ڈاکٹر ابراہیم خلیل جو جسمانی طور پر خاصے کمزور ہیں، اب بھی ذہنی طور پر پوری طرح نارمل نہیں ہیں۔ انہیں معمول پر آنے میں مزید چند دن لگیں گے۔ ان ذرائع کے مطابق اغوا کاروں نے انہیں اغوا کرنے سے پہلے ان کے بارے میں کافی معلومات حاصل کر رکھی تھیں۔ اغوا کرنے کے بعد ملزمان کو معلوم ہوا کہ ڈاکٹر ابراہیم کے قریبی رشتہ دار بیرون ملک بھی مقیم ہیں اور اسی کو اغوا کاروں نے تاوان کی رقم کی وصولی کا محفوظ ذریعہ سمجھ کر استعمال کیا۔ ڈاکٹر ابراہیم خلیل پہلے سے شوگر اور ہیپا ٹائٹس کے مریض تھے، اب کافی کمزور اور نقاہت محسوس کر رہے ہیں۔ اغوا کاروں نے انہیں زنجیروں میں جکڑ کر رکھا تھا۔ ان کی چند مرتبہ ان کے گھر والوں سے ٹیلی فون پر بات بھی کرائی گئی، جس میں انہوں نے اپنے اوپر روا رکھے گئے تشدد اور مشکلات سے آگاہ کر کے انہیں جلد از جلد رقم کا بندوبست کرنے کے کہا۔
ڈاکٹر ابراہیم خلیل کی اہلیہ نے ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’ڈاکٹر صاحب کو اغوا کرنے والے افراد اردو اور سندھی زبان میں گفتگو کرتے تھے اور ان کا ڈاکٹر صاحب سے رویہ انتہائی تکلیف دہ تھا۔ ان ظالموں نے ان پر جسمانی تشدد بھی کیا اور ذہنی طور پر انہیں پریشان کرنے کا کوئی موقع ضائع نہیں کیا، اور انہیں مسلسل پریشان رکھا‘‘۔ ایک سوال پر انہوں نے تصدیق کی کہ ڈاکٹر صاحب کی رہائی کیلئے تاوان کی رقم بیرون ملک ان کے بھائی کی وساطت کے ادا کی گئی اور اس رقم کا بندوبست انہوں نے اور ان کے خاندان نے کیا تھا۔ انہوں نے اس امر پر افسوس کا اظہار کیا کہ سرکاری ادارے ڈاکٹر صاحب کی کراچی میں موجودگی سے بے خبر رہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’اگر ہم انتظامیہ کو اغوا کاروں کے رابطے اور ڈیمانڈ سے آگاہ کر دیتے تو ڈاکٹر صاحب کی زندگی کو سنگین خطرہ لاحق ہو سکتا تھا۔ اسی لئے ہم نے انہیں نہیں بتایا۔ انہوں نے ڈاکٹر ابراہیم خلیل کی رہائی کیلئے ڈاکٹر ایکشن کمیٹی اور بلوچستان کے ان تمام لوگوں کا شکریہ ادا کیا، جنہوں نے مشکل کی اس گھڑی میں ان کا بھر پور ساتھ دیا اور ڈاکٹر ابراہیم کی بخیریت واپسی کے لئے کوششیں کیں۔ ایک سوال پر انہوں نے بتایا کہ ان کے شوہر ڈاکٹر ابراہیم خلیل کی صحت اچھی نہیں ہے اور انہیں نارمل ہونے میں مزید کچھ دن لگیں گے۔
ڈاکٹر ایکشن کمیٹی کے سینئر رکن ڈاکٹر غلام رسول نے مغوی ڈاکٹر ابراہیم خلیل کی بخیریت واپسی پر اطمینان کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے حکومت اور سرکاری اداروں کی کارکردگی کو مایوس کن قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’’ہمیں بتایا جاتا رہا کہ ڈاکٹر ابراہیم خلیل کو سرحد پار لے جایا گیا ہے۔ حالانکہ یہ اطلاع غلط تھی۔ ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’’کوئٹہ سے کراچی ٹیکسی سروس کے ذریعے فی سواری کرایہ چھ ہزار روپے ہے۔ اغوا کاروں نے تاوان وصولی کے بعد جب انہیں رہا کرنے کا فیصلہ کیا تو کچھ ایسا بندوبست کیا کہ ڈاکٹر ابراہیم خلیل کو ٹیکسی اسٹینڈ پر لے گئے اور انہیں چھ ہزار روپے دے دیئے اور ایک ٹیکسی جو کوئٹہ کے لئے تیار تھی، اس کے ڈرائیور کو بتایا کہ وہ سامنے جو شخص بیٹھا ہے، وہ بیمار ہے، اس نے بھی کوئٹہ جانا ہے، اسے بھی اپنی ٹیکسی میں بٹھا لو۔ ٹیکسی ڈرائیور کو پیغام دے کر اغوا کار غائب ہوگئے اور ڈاکٹر ابراہیم خلیل بذریعہ ٹیکسی کوئٹہ اپنے گھر پہنچ گئے‘‘۔
پروفیسر ڈاکٹر ابراہیم خلیل پر ہونے والے جسمانی و ذہنی تشدد سے کوئٹہ کے ڈاکٹرز شدید غم و غصے کا شکار ہیں۔ جبکہ تاوان کے عوض ان کی رہائی کو حکومت کی ناکامی اور صوبے کی ناقص سیکورٹی کا واضح ثبوت قرار دیتے ہیں۔ ڈاکٹروں نے اس بات کا بھی اظہار کیا کہ موجودہ حالات میں صوبے کے لوگوں کو طبی سہولیات فراہم کرنا ڈاکٹرز اور معالجین کے لئے اب بہت مشکل ہوگیا ہے۔ ڈاکٹر ایکشن کمیٹی نے اپنے اجلاس میں ان تمام تنظیموں اور شخصیات کا شکریہ ادا کیا، جنہوں نے اس مشل وقت میں ان کا ساتھ دیا۔
ڈاکٹر ابراہیم خلیل نے گھر پہنچنے کے بعد میڈیا سے مختصر گفتگو کی۔ ان کی داڑھی بڑھی ہوئی تھی اور جسمانی طور پر کافی نحیف نظر آرہے تھے۔ انہوں نے ان تمام لوگوں کا شکریہ ادا کیا، جنہوں نے ان کی رہائی کے لئے کوشش کی اور دعا کی کہ اللہ کرے یہ برائی معاشرے سے ختم ہو جائے۔ اللہ سب کو اپنی حفظ و امان میں رکھے اور ایسا دوبارہ کسی کے ساتھ نہ ہو۔

Comments (0)
Add Comment