ایک شخص کافی مدت سے بیمار اور زندگی سے لاچار وبے زار تھا۔ اُمید کا چراغ لے کر ایک ماہر طبیب کے پاس گیا اور عرض کرنے لگا: ’’جناب مجھے کوئی دوا اور بہتر مشورہ دیں تاکہ میں صحت مند ہو جاؤں اور آپ کے لئے صدقہ جاریہ بن جاؤں۔‘‘
طبیب نے اس کے حال واحوال کو غور سے دیکھا، پھر اس کی دُکھتی ہوئی رگ پر ہاتھ رکھا۔ پھر اس کے اندرونی حال سے واقف ہوا کہ اس کے بدن سے تو جان نکل چکی ہے۔ صحت کی اُمید ذرہ برابر نہیں، دوا دارو کر کے مفت میں اس غریب کو اور ہلکان کرنا ہے، لہٰذا طبیب نے مکمل تشخیص کے بعد مشورہ دیا: میاں! تم یہ دوادارو چھوڑو، انہی کی وجہ سے تمہاری صحت برباد ہو رہی ہے۔ جو تمہارے جی میں آئے، وہ کرو، ہرگز ہرگز اپنی کسی خواہش سے ہاتھ نہ روکنا، کیونکہ، صبر اور پرہیز اس مرض کے لئے مضر ہیں، خدا نے چاہا تو آہستہ آہستہ تمہاری تمام بیماریاں جاتی رہیں گی۔‘‘
طبیب کی باتیں سُن کر اس کی آنکھوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور اس کی زندگی کا بجھا ہوا چراغ پھر سے روشن ہوگیا۔ خوش ہو کر اس نے کہا ’’واہ! آپ نے کیا خوب مشورہ دیا ہے، آج سے اس مشورے پر دل و جان سے عمل کرو گا۔‘‘
’’مطب‘‘ سے نکل کر دردِ دل کا مریض ٹہلتا ٹہلتا ایک دریا کے کنارے جا نکلا تاکہ طبیعت بحال ہو جائے، وہاں اسے ایک اس سے بھی زیادہ دل جلا نظر آیا، جو دریا کے کنارے بیٹھا منہ ہاتھ دھو رہا تھا۔ اس کا گنجا سر دھوپ میں چمک رہا تھا۔ مریض کا بے اختیار جی چاہا کہ اس کے چمکتے ہوئے گنج پر ایک زوردار طمانچہ مارے۔
دل میں سوچنے لگا۔ اس وقت مجھے اپنی خواہش کو روکنا نہیں چاہیے، ورنہ میری صحت ٹھیک نہیں ہوگی۔ صبر اور پرہیز میرے لئے ہلاکت ہے اور طبیب کی ہدایت بھی یہی ہے کہ جو جی میں آئے، وہ کرو۔ یہ خیال آتے ہی وہ بے تکلف آگے بڑھا اور تڑاخ سے اس آدمی کی گُدی پر طمانچہ دے مارا، اس غریب کا دماغ گُھوم گیا۔ تڑپ کر اُٹھا اور کہا: اے بے ایمان میں نے تیرا کیا بگاڑا ہے اور ارادہ کیا کہ چانٹا مارنے والے کو دو تین گھونسے اس زور سے لگائے کہ یہ سب کچھ کھایا پیا بھول جائے، لیکن اس نے نظر جو اُٹھائی تو سامنے ایک نحیف ونزار شخص دیکھا، جس کی ایک ایک پسلی نمایاں نظر آرہی تھی۔ اس آدمی نے ہاتھ روک کر دل میں کہا اگر میں اس کو ایک گھونسا بھی ماروں تو یہ برداشت نہ کرسکے گا اور یہ اسی وقت موت کا راستہ لے گا، حالات کے مارے ہوئے کی موت کی ذمہ داری مجھ پر آئے گی اور پھر مرض الموت نے اس بچارے کا پہلے ہی کام تمام کر رکھا ہے۔ مرتے ہوئے کو کیا ماروں، لوگ سارا الزام مجھ پر دھردیں گے۔
اس نے سوچا خود بدلہ لینا کسی بڑی مصیبت کا پیش خیمہ بن سکتا ہے، لیکن اسے یوں چھوڑ دینا بھی ٹھیک نہ ہوگا۔ کیونکہ نہ جانے پھر کس کس کو طمانچے مارتا پھرے گا۔ لہٰذا اس نے ارادہ کیا کہ اس بیمار کو قاضی کی عدالت میں پیش کیا جائے اور وہاں انصاف طلب کرے۔ اس آدمی نے بیمار کا بازو پکڑا اور قاضی کی عدالت میں لے گیا اور اپنا دعویٰ قاضی کے سامنے پیش کیا، پھر مریض نے اپنی ساری روداد سنائی۔ قاضی سارے حالات و واقعات سُن کر غور کرنے لگا کہ شریعت کا فیصلہ تو زندہ آدمیوں اور صاحب مال کے لئے ہے، نہ کہ قبرستان والوں کے لئے۔
قاضی نے اس آدمی سے کہا: محترم آپ شرع، حسد، قصاص اور انتقام کی حقیقت کو سمجھتے ہیں۔ یہ تو قبر کی مانند ہے، اگر قبر کی اینٹ تیرے اُوپر گر جائے تو تُو قبر سے کیا انتقام لے گا، اس لئے تم اس بیمار سے جھگڑا نہ بڑھاؤ۔
پھر قاضی اس قبر کے مہمان کی طرف متوجہ ہوا اور اس سے پوچھا ’’بھائی تمہارے پاس کچھ رقم ہے؟‘‘ اس نے کہا ’’میرے پاس چھ درہم ہیں۔‘‘ قاضی نے فیصلہ دیتے ہوئے کہا کہ تم تین درہم اس آدمی کو دے دو اور تین اپنے پاس خرچے کے لئے رکھ لو۔ اس آدمی نے کہا قاضی صاحب پھر ہر لفنگا اسی طرح ہم جیسے شریف آدمیوں پر زیادتی کرتا رہے گا۔ قاضی اور اس شریف آدمی کے درمیان تکرار ہو رہی تھی۔
اِدھر اس بیمار کے دل میں ایک اور خواہش جنم لے رہی تھی۔ اس بھٹکے ہوئے بیمار کی نظر قاضی صاحب کے گنج پر پڑی۔ کس وقت سے اس کے ہاتھ میں خارش ہو رہی تھی۔ اس کے سر کا چاند اس آدمی کے گنج سے بھی زیادہ چکنا اور صاف تھا۔ اُسے وہ گدی طمانچہ مارنے کے لئے اس آدمی کی گدی سے کہیں زیادہ موزوں لگی۔ آخر قاضی نے نرمی سے اس آدمی کو کہا تیری بات درست ہے۔ ایسے شخص کو سزا ضرور ملنی چاہیے، لیکن یہ تو دیکھ وہ بے چارہ زندگی کے آخری دن پورے کر رہا ہے۔ خون کا ایک قطرہ اس کے بدن میں نہیں ہے۔ بجائے سزا کے یہ تو ہمدردی اور رحم کے لائق ہے۔
اس بیمار کو آخر دل کی بات ماننی پڑی اور دوسرا اس نے سوچا کہ طمانچے کا معاوضہ تین درہم سستا ہے، وہ راز کی بات کہنے کی غرض سے قاضی کے قریب ہوا اور ایک زور دار طمانچہ قاضی کی گدی پر رسید کر دیا اور کہنے لگا تم دونوں یہ پورے چھ درہم لے لو اور میں اس کیس سے فارغ ہوا۔ مجھے تو اس مخمصے سے رہائی دو۔ وہ یہ کہہ کر چل دیا۔ قاضی کو جب ہوش آیا تو اس آدمی نے کہا: اے انصاف کے بادشاہ! آپ نے جو دوسرے کے لئے پسند کیا، وہی آپ کو ملا۔ آپ کی مثال تو اس بکری کی طرح ہے، جس نے بھیڑیئے کے بچے کو دودھ پلایا۔
قاضی نے کہا کہ ہر وہ چیز جو قضا لے کر آئے، اس میں ہماری تسلیم و رضا ضروری ہے، میں خدا کے حکم سے باطن میں خوش ہوں، اگرچہ میرے چہرے پر نا گواری کے تاثرات اُبھرے ہیں۔ میرا دل، دماغ اور آنکھیں ابر کی مانند ہیں، کیونکہ ابر کے رونے سے باغ ہنستا ہے۔ قدرت الٰہیہ کے ہاتھ سے کسی کو زہر ملتا ہے اور کسی کو امرت، کسی کو غم اور کسی کو خوشی۔ انہی متضاد کیفیتوں میں چاہنے والوں کی بہتری اور اصلاح کا راز پوشید ہوتا ہے۔
درسِ حیات:
٭ حق تعالیٰ کے ہر کام میں بہتری ہوتی ہے۔ تسلیم و رضا سے اسے خدا کی مرضی سمجھ کر اس پر صبر و شکر سے کام لینا چاہیے۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭