ملائیشیا کا کم عمر ترین وزیر مہماتیر کا عکس قرار

عباس ثاقب
پاکستان میں نوجوانوں کے نام پر سیاست کرنے والے عمران خان تو اپنے وعدے کے برعکس اپنی جماعت کی طرف سے گنتی کے ہی چند نوجوان امیدوار انتخابات کے میدان میں اتار سکے، لیکن ان کے ممدوح ملائشیا کے مردِ آہن مہاتیر محمد نے اپنے ملک کے گزشتہ انتخابات میں کسی بلند بانگ دعوے کے بغیر صرف پچیس سال کے سیدصدیق بن عبدالرحمان کو اپنی پارٹی برساتو ( BERSATU) کی طرف سے موار حلقے کا قومی حلقے کا ٹکٹ دے کر سب کو حیران کردیا۔ مبصرین سید صدیق کو مہاتیر محمد کا عکس قرار دے رہے ہیں۔
اس شعلہ بیان مقرر نوجوان نے بھی اپنے مدمقابل، لگا تار تین انتخابات میں فتح یاب ہونے والے کہنہ مشق سیاسی رہنما داتو سری رضاعلی ابراہیم کو بھاری ووٹوں سے شکست دے کر اپنے قائد کی بصیرت اور فراست کی لاج رکھ لی۔ یاد رہے کہ رضا علی ابراہیم پہلی بار 21 مارچ 2004ء کو ملائشیا کی پارلیمنٹ کے رکن منتخب ہوئے تھے۔ انھوں نے 9 اپریل 2009ء کو لگاتار دوسری بار انتخابات میں بھاری اکثریت سے فتح حاصل کی اور تیسری اور آخری بار 16مئی 2013ء کو کامیاب ہوئے۔ انہیں 9 مئی 2018ء کو ہونے والے گزشتہ انتخابات میں موار، جوہر کے پی 146حلقے میں پڑنے والے 42,719 ووٹوں میں سے 15,388ووٹ ملے جبکہ ان کا نوجوان مدمقابل یعنی سید صدیق 22,341 ووٹ حاصل کرکے واضح اکثریت سے کامیاب ہوگیا۔
سید صدیق کو اپنی اس تاریخی کامیابی کا ان کے قائد اور پارٹی کے صدر مہاتیر محمد کی طرف سے شایان شان صلہ دیا گیا اور ان کی بھر پور حوصلہ افزائی کرتے ہوئے انھیں اپنی حکومت میں نوجوانوں اور کھیل کے وفاقی وزیر کے عہدے پر فائز کردیا گیا۔ 2 جولائی 2018ء کو اپنے عہدے پر متمکن ہونے والے سید صدیق اپنے ملک کی تاریخ کے کم عمر ترین وزیر قرار پائے۔ سید صدیق 2016ء میں اپنی نو قائم شدہ جماعت کے ترجمان کے ترجمان مقرر ہوئے تھے اور بانی ارکان میں سے سمجھے جاتے ہیں۔ وہ پارٹی کونسل کا بھی حصہ ہیں۔
سید صدیق 6 دسمبر 1992ء کو ملائشیا کی جوہور اسٹیٹ کے دارالحکومت جوہور باہرو کے علاقے پولائی میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے پہلے رائل ملٹری کالج اور پھر انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی ملائشیا میںوکالت کی تعلیم حاصل کی اور یہی ان کا باقاعدہ پیشہ ہے۔ اپنی وزارت پر فائز ہونے کے بعد سے سید صدیق ملائشیا میں ووٹ ڈالنے کی کم ازکم عمر کو اکیس سال سے کم کرکے اٹھارہ سال کرنے کے لیے جدوجہد کررہے ہیں۔ ان کی خواہش ہے کہ وہ آئندہ انتخابات سے پہلے اپنی اس کوشش میں کامیاب ہوجائیں۔
سید صدیق شعلہ بیان مقرر ہیں۔ تاہم اپنے انقلابی خیالات کی وجہ سے سابقہ دورِ حکومت میں وہ مسلسل سرکار ی عتاب کا شکار رہے اور یکے بعد دیگرے چار سرکاری یونیورسٹیوں میں ان کے تقریر کرنے پر پابندی لگادی گئی تھی۔ تاہم اس زمانے میں انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی ملائشیامیں تقریر کی تربیت دینے کا ماہر یہ چوبیس سالہ نوجوان اس وقت ملک بھر کی توجہ کا مرکز بنا جب اس نے ایک ایسے شہری اعلامیے پر دستخط کی تقریب کی نظامت کے فرائض ادا کیے جس میں ڈاکٹر مہاتیر محمد اور سیاست دانوں کے ایک گروپ اور فلاحی تنظیموںنے شرکت کی تھی۔
تاہم ایشین برٹش پارلیمنٹری ڈیبیٹنگ چیمپیئن شپ میں ایشیا کے بہترین مقرر کا اعزاز تین بار جیتنے والے سید صدیق پر ان یونیورسٹیوں میں تقریر پر پابندی عائد کردی گئی۔ اسے ’’ملائشیا بچاؤ تحریک ‘‘ کا حصہ ہونے کی وجہ سے متعدد بار جان لینے کی دھمکیاں بھی موصول ہوئیں۔
رائل ملٹری کالج کے طلبہ اور اساتذہ کا کہنا ہے کہ وہ ایک سچا وطن پرست ہے۔ وہ اس زمانے میں بھی اپنے اور وطن کے لیے بہت بڑے بڑے منصوبے رکھتاتھا اور اس کی پختہ رائے تھی کہ اس ملک کو آگے لے جانے کے لیے اس کے نظام میں بنیادی اصلاحات کی ضرورت ہے۔
سید صدیق کی کامیابی کے سفر پر مہاتیر محمد کے نقوش بہت گہرے ہیں ۔ اپنی کم عمری کے باوجود وہ اپنے حلقے کے دیرینہ فاتح اور مضبوط ترین رضاعلی کے لیے خطرہ بنا تو مخالف پارٹی کے سربراہ نے اسے ’’بلی‘‘ کہہ کر اس کا مذاق اڑایا لیکن نوجوان رہنما نے یہ کہہ کر بازی پلٹ دی کہ شیر بھی بلی کی ہی ایک قسم ہے۔ اس لیے وہ بلی کہے جانے کو اپنی توہین نہیں سمجھتا۔ وہ اپنی کامیابی کے لیے اتنا پُر اعتماد تھا کہ اس نے مخالف جماعت کے سربراہ کے مقابلے میں انتخاب لڑنے کا ارادہ ظاہر کیا لیکن مہاتیر محمد یہ کہہ کر اس کی تجویز رد کردی کہ وہ اپنے نوجوان ساتھی کو یقینی نشست سے فتح یاب دیکھنا چاہتے ہیں۔
دوسری طرف سید صدیق کے کامیابی کے سفر کو دیکھتے ہوئے اسے مہاتیر محمد کی پارٹی چھوڑنے اور ان کو مباحثے کے لیے چیلنج کرنے کیلئے پچاس لاکھ رنگٹ کی رشوت پیش کی گئی جسے اس نے قبول کرنے سے انکار کردیا۔ یہی نہیں، اسے دھمکی آمیز تصاویر بھی بھجوائی گئیں لیکن سید صدیق نے کہا ’’مجھ پر یقین رکھیں، چاہے مجھے کتنی بھی بڑی رقم کی رشوت پیش کی جائے یامجھے یا میری فیملی کو کتنی بھی سنگین دھمکیاں دی جائیں، میں ہارماننے کے بجائے موت کو ترجیح دوںگا۔‘‘
سید صدیق نے اپنے سیاسی نظریات کے بارے میں بتایا ’’مجھے ادراک ہوا کہ ملائشیا میں فوج کے ذریعے تبدیلی نہیں لائی جاسکتی۔ اسے خوش قسمتی کہیں یا بدقسمتی، ملائشیا صرف سیاست اور جمہوریت ہی سے بدلا جاسکتاہے۔ اسی لیے میں نے سوچا کہ اگر میں اپنے ملائشیا کو تبدیل کرنا چاہتا ہوں تو مجھے سیاست میں حصہ لینا پڑے گا۔ اس کا مطلب کوئی پیشہ ور سیاست دان بننا ہرگز نہیں ہے۔ میں سیاست دانوں کو تبدیلی کی طرف دھکیلنے والی قوت بن کر بھی اس مقصد کے لیے مثبت کردار ادا کرسکتا ہوں۔ مجھے پتا ہے کہ اس کا مطلب اپنی جان داؤ پر لگانا ہے، لیکن کسی بھی جدوجہد میں قربانیاں تو دینی پڑتی ہیں۔ہر جدوجہد ابتدا میں خون پسینہ مانگتی ہے، لیکن بالآخر محنت کا پھل بھی ملتاہے۔ نہ صرف آپ کو، بلکہ آپ کے وطن کو بھی۔ ‘‘ ٭
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment