سندھ کے آبادگار آئندہ گنا اگانے کے لئے تیار نہیں

راشد سلیم
حکومت سندھ کی جانب سے زراعت کے شعبے میں عدم دلچسپی اور آباد گار دشمن پالیسیوں کی وجہ سے سندھ میں زراعت کے شعبہ کے ساتھ ساتھ آبادگار بھی تباہی کی جانب گامزن ہیں۔ سندھ حکومت نہ وقت پر گنے کی فصلوں کے ریٹ مقر ر کرتی ہے اور نہ ہی وقت پر شوگر ملوں میں کرشنگ شروع کی جاتی ہے جس کی وجہ سے گنے کے کاشت کار سخت دلبر داشتہ ہو گئے ہیں۔ مہنگے داموں فصلوں کے بیج ، زرعی ادویات اور زمین کی تیاری میں ہونے والے اخراجات کیلئے اس امید پر ڈیلروں سے قرض پر بیج ،کھاد اور زرعی ادویات حاصل کرتے ہیں کہ جب فصلیں اتریں گی تو یہ قرض ادا کر دیں گے۔ لیکن فصلوں کی مناسب دام نہ ملنے کی وجہ سے آباد گار مقروض سے مقروض تر ہوتے جا رہے ہیں۔ گنے کی فصل پر فی ایکڑ خرچ 70سے 80 ہزار روپے سے زائد آتاہے جبکہ موجودہ ریٹ میں خرچہ بھی پورا نہیں ہوتا ہے۔ حکومت سندھ کی بے حسی اور شوگر مل مالکان کی من مانیوں سے دلبرداشتہ ہو کر آباد گاروں نے گنے کی فصل نہ لگانے کا اعلان کیا ہے۔ سندھ بھر میں شوگر ملوں پر آباد گاروں کے ساڑھے چار ارب روپے کے بقایا جات ہیں۔ سندھ میں شوگر ملوں کا کاروبار مافیا کے ہاتھوں میں چلا گیا ہے۔ بہت جلد سندھ میں شوگر ملوں کی مشینری فروخت ہونا شروع ہو جائے گی۔ اس حوالے سے گنے کے معروف کاشت کار و آباد گار تنظیم فارمرز آرگنائزیشن کونسل سندھ کے جاوید جونیجو نے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ’’گزشتہ ایک دھائی سے سندھ میں گنے کے کاشت کاروں کے ساتھ حکوت سندھ اور شوگر مل مالکان زیادتیاں کر رہے ہیں۔ شوگر کین ایکٹ کے مطابق اکتوبر کے مہینے میں شوگر ملیں کرشنگ شروع کرتی ہیں لیکن ایسا نہیں ہوتا ہے۔ ہر سال شوگر مل مالکان تاخیر سے ملیں چلاتے ہیں جس کی وجہ سے گنے کی فصل زمینوں میں سوکھنے اور وزن کم کرنا شروع کر دیتی ہے۔ گنے کا وزن کم ہونے سے آباد گاروں کو بھاری نقصان جبکہ مل مالکان کو فائدہ ہوتا ہے۔ اس لئے مل مالکان زیادہ منافع کی لالچ میں ملیں تاخیر سے شروع کرتے ہیں اور حکومت سندھ بھی مل مالکان کے سامنے بے بس ہے۔ گنے کی فصل ڈیڑھ سال کی ہوتی ہے اور اس پر فی ایکڑ 70 سے 80 ہزار روپے خرچہ آتاہے۔ جبکہ اگر گنے کا ریٹ اچھا ہو تو فی ایکڑ گنے کی فصل ایک لاکھ تیس ہزار تک فروخت ہوتی ہے۔ اس پر شوگر مل مالکان گنے کی فی ٹرالی پر نو فیصد تک بلاوجہ کی کٹوتی کرکے آبادگاروں کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ گنے کی اس آمدنی میں سے آدھا کسان کا اور آدھا زمیندار کا ہوتا ہے۔ اس لئے گنے سے بہتر ہے کہ لکڑیاں کاشت کی جائیں۔ کیونکہ اس کا ریٹ بھت اچھا ہے اور خرچہ بھی نہیں ہوتا ہے۔ گنے کی فصل میں نقصان ہو رہا ہے کپاس، سونف، سورج مکھی، گندم کی فصل تین ماہ کی ہوتی ہے اور اس کے ریٹ بھی اچھے ہوتے ہیں۔ جس کی وجہ سے آباد گار ان فصلوں کی طرف جا رہے ہیں۔‘‘
ایوان زراعت سندھ کے جنرل سیکریٹری زاہد بھرگڑی کا کہنا ہے کہ ’’سندھ میں گنے کی فصل کا مستقبل روشن نہیں ہے جس کی وجہ شوگر مل مالکان اور حکومت سندھ کی آباد گار دشمن پالیسیاں ہیں۔ پچھلے چند سال سے شوگر مل مالکان نے حکومت سندھ سے ملی بھگت کر کے آباد گاروں کو تنگ کرنے کا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے اور اب گنے کے کاشتکار گنے کی فصل سے دسبر دار ہو رہے ہیں۔ سندھ میں کل 38 شوگر ملیں ہیں اور زیادہ تر شوگر ملیں اومنی گروپ کی ہیں جن میں سے دس شوگر ملیں مختلف وجوہات کی وجہ سے اس سال بند ہیں۔ جبکہ رواں سال 28 شوگر ملیں چل رہی ہیں۔ گزشتہ سال سندھ بھر میں سات لاکھ ایکڑ رقبے پر گنے کی فصل کاشت کی گئی تھی۔ لیکن اس سال گنے کی پچاس فیصد کاشت کم ہوئی ہے اور سندھ میں بارشوں کے نہ ہونے اور پانی کی قلت کی وجہ سے گنے کی فی ایکڑ پیداوار بھی کم ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ ’’حکومت سندھ نے رواں سال گنے کے فی من ریٹ 182روپے مقرر کئے تو مل مالکان نے ان نرخوں کو نہ مانتے ہوئے عدالت میں ان نرخوں کو چیلنج کیا تھا اور اس وقت جب گنا کم ہے تو ملوں میں مقابلہ بازی کا رجحان ہے اور 220 روپے من تک گنا خرید رہے ہیں۔ مل مالکان کہتے ہیں کہ 182 کا ریٹ ان کے وارے میں نہیں ہے تو 220 کاریٹ اب ان کے وارے میں کیسے ہو گیا ہے؟‘‘ انہوں نے کہا کہ ’’بد قسمتی سے شوگر مل کا کاروبار اب ایک مافیا کو منتقل ہوگیا ہے۔ آبادگاروں کی جانب سے گناکی فصل کاشت نہ کرنے کی وجہ سے شوگر ملوں کا کاروبار نہ صرف بند ہو جائے گا۔ بلکہ بہت جلد شوگر ملوں کی مشینری بھی فروخت ہونا شروع ہو جائے گی۔‘‘
آباد گار بورڈ میرپورخاص کے رہنما سرفراز علی جونیجو نے بتایا کہ ’’سندھ میں گنے کے آباد گاروں اور شوگر ملوں کی تباہی کی زمہ دار اومنی گروپ کی شوگر ملیں ہیں، جنہوں نے اپنے زیادہ منافع کی لالچ میں سندھ کی زراعت کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔ گنے کی کاشت ملکی معیشت میں بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ لیکن حکومتی عدم توجہی کی وجہ سے سندھ میں گنے کی پیداوار نصف ہو کر رہ گئی ہے اور آئندہ سال تو اس میں مزید کمی واقع ہو گی۔ کیونکہ حکومت اس طرف کوئی توجہ نہیں دے رہی ہے اور مل مالکان کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے۔ آباد گار گنے کی فصل کے بجائے دیگر فصلیں کاشت کریں گے تو ملک میں آئے دن شوگر کا بحران پیدا ہوتا رہے گا۔‘‘
واضع رہے کہ ہر سال گنے کے کاشت کار نرخوں اور شوگر ملوں کی کرشنگ شروع نہ ہونے کے خلاف سراپا احتجاج بنے رہتے ہیں۔ اس حوالے سے میرپورخاص شوگر مل اور العباس شوگر مل انتظامیہ سے بار بار کوشش کے باوجود رابطہ نہیں ہو سکا۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment