زرعی اراضی تنازع ڈی سی ٹوبہ ٹیک سنگھ کی تبدیلی کا سبب بنا

نجم الحسن عارف
اراضی کا تنازع ڈپٹی کمشنر ٹوبہ ٹیک سنگھ احمد خاور شہزاد کے تبادلے کا سبب بنا۔ ’’امت‘‘ کے ذرائع کے مطابق ڈپٹی کمشنر بھی روایتی بیوروکریٹس کی طرح تمام بڑوں سے بناکر رکھنے کی کوشش میں رہتے تھے، لیکن بالآخر انہیں ایک دھڑے کے پلڑے میں اپنا وزن ڈالنا پڑا۔ جس کی وجہ سے گورنر پنجاب چوہدری سرور ناراض ہوگئے اور ان کے کہنے پر وزیراعلیٰ نے فوری طور پر ڈی سی کو تبدیل کردیا۔ ذرائع کے مطابق گورنر پنجاب نے 29 جنوری کو ٹوبہ ٹیک سنگھ کا دورہ کیا اور اگلے روز لاہور سے تبادلے کے لیٹر کا اجرا کردیا گیا۔ ان احکامات کے پہنچنے سے قبل ڈی سی اور ضلعی انتظامیہ کے دوسرے حکام کو ٹی وی چینلز کے ذریعے اس ہنگامی تبدیلی کا علم ہوچکا تھا۔ واضح رہے کسی حکومتی شخصیت کی ناراضگی کے باعث پی ٹی آئی حکومت کے برسراقتدار آنے کے بعد تیسرا بڑا واقعہ ہے۔ اس سے پہلے ڈی سی او پاکپٹن، پولیس چیف اسلام آباد کی تبدیلیاں بھی انہی بنیادوں پر کی گئی تھیں۔ جن پر میڈیا اور عدلیہ میں خوب شور ہوا اور اسلام آباد پولیس کے سربراہ کی تبدیلی کو نہ صرف عدالت عظمیٰ نے واپس کردیا بلکہ وفاقی وزیر اعظم خان سواتی کو استعفی بھی دینا پڑا۔ اب اس معاملہ کو گورنر پنجاب چوہدری سرور کی خوشنودی کیلئے انجام تک پہنچایا گیا ہے۔ ’’امت‘‘ کے ذرائع کے مطابق گورنر پنجاب جن کا ٹوبہ ٹیک سنگھ سے تعلق ہے، اپنے ضلع میں اپنا اور اپنے خاندان کا سیاسی اثرو رسوخ بڑھانا ان کی اہم ضرورت ہے۔ اس کیلئے انہوں نے ریاض فتیانہ گروپ کے مخالف چوہدری اشفاق کے گروپ کو اپنا اتحادی بناکر رکھا ہے۔ جبکہ چوہدری اشفاق گروپ ڈپٹی کمشنر احمد خاور شہزاد سے سرکاری زرعی اراضی کی مبینہ طور پر غلط الاٹمنٹ کی منسوخی ختم کرانے میں ناکام ہو رہا تھا۔ جن کے بعد ڈی سی کو ضلع میں برداشت کرنا مشکل ہوگیا۔ اور صوبائی حکومت کو فوری طور پر ضلعی انتظامیہ کے سربراہ کو تبدیل کرنا پڑا۔ نتیجتاً یہ ڈی سی صاحب حکومت کے اس فیصلے کے خلاف سامنے آگئے۔ ’’امت‘‘ کے ذرائع نے دوٹوک انداز میں اس امر کی تردید کی ہے کہ اس معاملے کا گورنر پنجاب کے واٹر فلٹریشن سے متعلق مفادات یا مبینہ کاروبار سے کوئی لینا دینا نہیں ہے، بلکہ اس تنازعہ کی وجہ صاف پانی یا واٹر فلٹریشن کے پلانٹوں کی تنصیب ہرگز نہیں بنی ہے بلکہ وہ سرکاری زرعی اراضی ہے جو تحصیل ٹوبہ کے دو ضلع 405 ج ب سے منسلک ہے۔ خیال رہے پنجاب میں صاف پانی کی فراہمی کو صوبائی حکومت کے اہم ترین حکام بھی سمجھتے ہیں کہ گورنر کا اس میں ذاتی اور کاروبار مفاد ہے۔ اسی لئے گورنر نے وزیراعظم سے غیر معمولی انداز میں اتھارٹی بلوائی۔ ذرائع کے مطابق اس علاقے میں 60 لاٹس پر مشتمل قطعات اراضی تھے جن میں تقریباً ہر قطعہ اراضی ساڑھے بارہ ایکڑ یعنی آدھے مربعے پر محیط تھا۔ قطعات اراضی یا ان میں اکثر قطعات اراضی بعض لوگوں نے ناجائز بنیادوں پر اور جعلی ناموں پر سرکاری افسران کے ساتھ مل ملاکر الاٹ کروالئے۔ انہی 60 لاٹس میں سے 10 لاٹوں کو سابق ن لیگی ایم پی اے میاں محمد رفیق کے مسلسل تعاقب کرنے پر انتظامیہ نے منسوخ کیا۔ ذرائع کے مطابق یہ لاٹیں مرحوم نور احمد کے بیٹے بشیر احمد کے کنٹرول میں تھیں، جو چوہدری اشفاق کے گروپ کا حصہ ہے اور وہ خود بھی یونین کونسل کا چیئرمین ہیں۔ چوہدری اشفاق اپنی پارٹی کی حکومت آنے کے بعد اس کوشش میں رہے کہ اپنے گروپ کے اس اہم رکن کی زرعی اراضی بحال کرواسکیں۔ لیکن یہ معاملہ تحصیل کی سطح سے اب ڈپٹی کمشنر کے کورٹ میں آنے کے باوجود حل نہیں ہوسکا تھا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ڈی سی ٹوبہ ایک روایتی بیوروکریٹ کی طرح ہر سیاستدان اور میڈیا کے ساتھ تعلقات کو بڑی اہمیت دینے والے افسر ہیں، لیکن اس معاملے میں انہیں پی ٹی آئی کے کسی ایک دھڑے کی بات ماننا تھی اور کسی ایک کو انکار کرنا تھا۔ یوں انہوں نے ریاض فتیانہ اور ان کی صوبائی وزیر اہلیہ کے پلڑے میں وذن ڈالنے کا ذہن بنایا۔ یہ صورت حال چوہدری اشفاق گروپ کیلئے قابل قبول نہ تھی۔ چوہدری اشفاق گروپ نے گورنر سے قربت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ڈی سی کو تبدیل کرا دیا۔ ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی کے کرتا دھرنا رہنمائوں نے آج کل پنجاب میں اپنے اپنے دھڑوں اور مفادات کیلئے بڑے واضح انداز میں کام شروع کر رکھا ہے۔ اس لئے وہ جلدی جلدی پہلے اپنے ذاتی اور گروہی مفادات کو حاصل کرنے کی کوشش میں ہیں، اسی بھاگ دوڑ کی زد میں ڈی سی ٹوبہ ٹیک سنگھ بھی آگیا۔
’’امت‘‘ کے ذرائع کے مطابق ڈپٹی کمشنر کی عمومی شہرت یہ ہے کہ وہ میڈیا میں موضوع بننے والی چیزوں کو زیادہ توجہ دیتے ہیں اور سیاسی لوگوں کے ساتھ اچھے مراسم کی بنیاد پر ترقی ممکن بنانے والے ہیں۔ اس صورتحال میں بھی انہوں نے ایک گروپ کی حمایت ضرور حاصل کی ہے۔ امکان ہے کہ انہیں آئندہ دنوں اس ’’قربانی‘‘ کا ثمر مل جائے گا۔ واضح رہے 29 جنوری کو جاری کئے گئے سرکاری احکامات میں انہیں لاہور میں زرعی شعبے کے ایک پراجیٹ کا سربراہ بنایا گیا ہے جبکہ ان کی جگہ حکومت نے میاں محسن رشید کو نیا ڈپٹی کمشنر مقرر کیا ہے۔ وہ اس سے پہلے ایڈیشنل سیکریٹری محکمہ جیل خانہ جات کے طور پر کام کر رہے تھے۔ ’’امت‘‘ کے ٹوبہ ٹیک سنگھ میں موجود ذرائع نے اس امر کی تصدیق کی ہے کہ گورنر پنجاب جو وزیراعلیٰ پر عرصے سے حاوی نظر آتے ہیں، اس سے قبل پنجاب میں اپنی پسند کا آئی جی تعینات کراچکے ہیں۔ گورنر کے بھانجے ڈاکٹر کاشف ریاض 2017 میں ایک نجی اسپتال سے متعلق گردہ اسکینڈل کی زد میں آئے تھے۔ لیکن اس اسکینڈل کے بعد وہ ایک عرصے تک منظر سے غائب رہے، اب پی ٹی آئی کی حکومت آنے کے بعد چندہ ماہ سے منظر عام پر زیادہ نظر آئے ہیں۔ دلچسپ بات ہے کہ ڈاکٹر کاشف فیاض کے ’’ابراہیم میڈیکل کمپلیکس‘‘ نامی اسپتال کا گردہ اسکینڈل میں ملوث ماتحت عملہ تو ابھی جیلوں میں ہے لیکن اسپتال کے مالک ڈاکٹر کاشف آزاد ہیں۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے متعلقہ حکام کے ساتھ ’’مک مکا‘‘ ممکن بنالیا ہے اور اب انہیں گردہ اسکینڈل کے حوالے سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ چوہدری محمد سرور کے دوبارہ گورنر بننے کے بعد متحرک ہوئے ہیں۔ ’’امت‘‘ نے اس سلسلے میں سابق ڈپٹی کمشنر ٹوبہ احمد خاور شہزاد سے بھی رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن ان کے اہل خانہ نے فون سنا اور کہا وہ فون گھر بھول گئے ہیں اور اپنی والدہ کو لے کر لاہور گئے ہیں۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment