حاضر سروس فوجی افسروں کے واٹس ایپ گروپ غیر فعال

امت رپورٹ
فوج کے حاضر سروس افسران کے واٹس ایب گروپ غیر فعال ہوگئے ہیں۔ تقریباً ایک ہفتہ قبل جی ایچ کیو کی طرف سے پابندی کے احکامات جاری کئے گئے تھے۔ اب ان احکامات پر عملدرآمد ہوچکا ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ اس پابندی کا اطلاق ان فوجی افسروں پر بھی ہوگا، جو ریٹائرمنٹ کے بعد اب کسی ایسے ادارے میں ملازم ہیں، جسے فوج چلا رہی ہے۔
سوشل میڈیا کے سحر نے تقریباً ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کو اپنے سحر میں جکڑ رکھا ہے۔ ان میں سے شاید ہی کوئی ہو، جس کا فیس بک ، ٹوئٹر، انسٹاگرام، لنکڈان یا سماجی رابطے کی کسی اور ویب سائٹ پر اکائونٹ نہ بنا ہو۔ انٹرنیٹ کی یہ سوشل ویب سائٹس اب سیاست اور دیگر ایشوز پر بحث کا ایک باقاعدہ فورم بن چکی ہیں۔ تاہم آپس میں فوری رابطے اور ایک دوسرے تک معلومات پہنچانے کے حوالے سے واٹس ایپ کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔ سیاسی پارٹیوں، صحافیوں اور کاروباری حضرات سمیت دیگر حلقوں نے باقاعدہ اپنے واٹس ایپ گروپس بنارکھے ہیں، اس کے نتیجے میں کوئی بھی انفارمیشن یا پیغام سیکنڈوں میں گروپ ارکان میں شیئر ہوجاتا ہے اور فرداً فرداً کسی کو مطلع کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ جبکہ واٹس ایپ گروپ کے ارکان کے درمیان مختلف ایشوز پر ڈسکشن کے سبب سب ایک دوسرے کے خالات سے آگاہ بھی رہتے ہیں۔
ذرائع نے بتایا کہ اس سہولت سے فائدہ اٹھانے اور ایک دوسرے سے مسلسل رابطے میں رہنے کے لئے پاک فوج کی مختلف یونٹوں نے بھی اپنے واٹس ایپ گروپس بنا رکھے تھے۔ ان گروپوں میں حاضر سروس اور ریٹائرڈ افسران دونوں شامل تھے۔ مقصد یہ تھا کہ ریٹائرڈ افسران کا اپنے جونیئرز یا ماضی میں ماتحت رہنے والے حاضر سروس فوجی افسران کے ساتھ سماجی رابطہ برقرار رہے اور ایک دوسرے کی خیر و عافیت سے واقف رہیں۔ پانچ سے چھ سو کے قریب یونٹوں میں سے بیشتر نے اپنے نام سے واٹس ایپ گروپس بنا رکھے تھے۔ اسی طرح مختلف کورس کے واٹس ایپ گروپ بھی موجود تھے۔ ان واٹس ایپ گروپس کے ارکان کے درمیان ہر قسم کی گپ شپ لگتی۔ مختلف موضوعات زیر بحث آتے۔ ایک دوسرے کی جانب سے لکھے مضامین پر تبادلہ خیال ہوتا۔ یہ بظاہر کوئی قابل اعتراض بات نہیں تھی۔ تاہم ذرائع کے مطابق پابندی کی ضرورت اس لئے محسوس کی گئی کہ بہت سی ایسی اہم معلومات، جسے میڈیا میں نہیں آنا چاہئے یا مناسب وقت پر آنا چاہئے تھا، یہ انفارمیشن قبل از وقت افشا ہونے لگیں۔ اس میں واٹس ایپ گروپ کے ایڈمن یا ارکان کا دانستہ کوئی عمل دخل نہیں تھا، لیکن جب واٹس ایپ گروپ میں کسی اہم معاملے یا جاری آپریشن سے متعلق کوئی انفارمیشن ڈسکس ہوتی تو سوشل میڈیا سے اس معلومات کو الیکٹرانک میڈیا اچک لیتا تھا۔ ذرائع کے بقول بالخصوص Combat Zone میں تعینات افسران، جو دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑرہے ہیں، وہ جب کسی اہم کارروائی کی تفصیلات اپنے واٹس ایپ گروپ کے ارکان سے ڈسکس کرتے تو یہ انفارمیشن یا اس کا کچھ حصہ میڈیا کے ہاتھ لگ جاتا تھا۔ اگرچہ گروپ میں اس نوعیت کا معاملہ ڈسکس کرنے والوں کا خیال ہوتا تھا کہ بات صرف ان کے حلقے میں یا قریبی لوگوں تک محدود ہے۔ لیکن اس کے برعکس ہورہا تھا۔ بالخصوص جنگی زون میں تعینات افسران کی جانب سے اپنے کسی سینئر ریٹائرڈ افسر کے ساتھ ہونے والی ڈسکشن عموماً افشا ہوجایا کرتی تھی۔ کیونکہ بیشتر ریٹائرڈ افسر یا تو دفاعی تجزیہ نگار کے طور پر میڈیا میں آرہے ہیں، یا وہ اس قسم کی معلومات کا اشارہ اپنے ٹیوٹر اکائونٹ پر دے دیا کرتے تھے۔ ذرائع کے بقول جنگی زون میں ہر دوسرے روز دہشت گردوں کے خلاف کوئی نہ کوئی کارروائی ہوتی ہے۔ بعض اوقات اس قسم کی کارروائی کا علم جی ایچ کیو کو بعد میں ہوتا تھا اور یہ انفارمیشن سوشل میڈیا سے ہوتی ہوئی روایتی میڈیا تک پہلے پہنچ جایا کرتی تھی۔ جبکہ واٹس ایپ گروپس میں زیر بحث اس نوعیت کی خبروں میں جی او سیز اور کارروائی کرنے والے متعلقہ یونٹوں کے نام کے علاوہ کارروائی کا مقام اور وہاں تعینات افسروں کے بارے میں تفصیلات بھی سامنے آجایا کرتی تھیں۔ یہی سبب ہے کہ بعض سینئر ریٹائرڈ افسران کی طرف سے ان واٹس ایپ گروپوں پر پابندی کے لئے پچھلے کافی عرصے سے زور دیا جارہا تھا۔ یہ افسران سمجھتے تھے کہ واٹس ایپ گروپ بنانے والوں کی نیت صاف ہے اور وہ دانستہ بھی یہ معلومات افشا نہیں کرتے، لیکن غیر محفوظ انٹرنیٹ کے سبب انفارمیشن ان کے حلقے تک محدود نہیں رہ پا رہی۔ ذرائع کے مطابق بعض واٹس ایپ گروپ غیر ارادی طور پر تحریک انصاف اور مسلم لیگ ’’ن ‘‘کے درمیان سوشل میڈیا پر جاری جنگ کا بھی حصہ بن رہے تھے۔ واضح رہے کہ سوشل میڈیا پر تحریک انصاف والے مسلم لیگ ’’ن‘‘ کو ’’پٹواری ‘‘ اور نون لیگ والے تحریک انصاف کو ’’یوتھیا‘‘ کے نام سے پکارتے ہیں۔ ذرائع کے مطابق سب سے فکر مند بات یہ تھی کہ ان واٹس ایپ گروپوں میں ملک دشمن عناصر یا بیرونی ایجنسیوں کے ایجنٹوں کے شامل ہونے کا خدشہ پیدا ہوگیا تھا۔
ذرائع کے مطابق واٹس ایپ گروپ بنانے کی پابندی سیکنڈ لیفٹیننٹ سے لے کر لیفٹیننٹ جنرل تک کی سطح کے افسران پر لگائی گئی ہے۔ معاملے کی حساسیت کو سمجھتے ہوئے متعلقہ فوجی افسران واٹس ایپ گروپ سے نکل گئے ہیں۔ اس پابندی کا اطلاق ان ریٹائرڈ افسران پر بھی ہوگا، جو ریٹائرمنٹ کے بعد اب فوج کے تحت چلنے والے کسی اور ادارے یا کمپنی میں ملازم ہیں۔ ان میں فوجی فائونڈیشن، سیمنٹ، کیمیکل اور فرٹیلائزر سے متعلق مختلف کمپنیاں شامل ہیں۔ مستقبل قریب میں اس قسم کے احکامات ایئر فورس اور نیوی کے افسران کے لئے بھی جاری ہوسکتے ہیں۔ ذرائع کے مطابق اب واٹس ایپ گروپ میں صرف ریٹائرڈ افسران باقی رہ گئے ہیں، ان سے بھی کہا گیا ہے کہ وہ اپنی یونٹ یا کورس کے نام پر واٹس ایپ گروپ یا سماجی ویب سائٹ کا کوئی اکائونٹ نہ بنائیں۔
ریٹائرڈ فوجیوں کی سب سے بڑی نمائندہ تنظیم ’’ایکس سروس مین سوسائٹی‘‘ نے واٹس ایپ گروپس پر پابندی کا خیرمقدم کیا ہے۔ اور اسے ایک اہم فیصلہ قرار دیا ہے۔ اس سلسلے میں ’’ایکس سروس مین سوسائٹی‘‘ کا ایک اجلاس بھی ہوا، جس میں اس ایشو پر تفصیلی بات کی گئی۔ اکثریت نے اس فیصلے کو سراہا اور کہا کہ یہ احکامات بہت پہلے جاری ہوجانے چاہئے تھے۔ ذرائع کے مطابق اس پابندی کے نتیجے میں ریٹائرڈ فوجی افسران کو ملنے والی انفارمیشن کی ایک بڑی سورس بند ہوگئی ہے۔ لہٰذا ٹاک شوز یا اپنے مضامین میں ان دفاعی تبصرہ نگاروں کو اب معلومات سے زیادہ انحصار اپنے تجزیے پہ کرنا پڑے گا۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment