تثلیث سے توحید تک

مس عالیہ نے الحساقہ میں ٹیچرز یونین کے صدر بدرالشواف سے بات کی۔ بدر کا تعلق بھی حماہ سے تھا اور وہ وہاں خاصا رسوخ رکھتے تھے۔ چنانچہ انہوں نے بڑی مسرت کے ساتھ آمادگی کا اظہار کر دیا کہ وہ امل کو اپنے گھر میں پناہ دیں گے، جہاں وہ خاندان کے ایک فرد کی حیثیت سے کامل اطمینان اور بے خوفی سے جب تک چاہے گی، مقیم رہ سکے گی۔ طے پایا کہ اسکول کا سیشن مکمل ہوتے ہی بدر الشواف امل کو کسی طرح حماہ لے جائیں گے۔ اس دوران میں وہ اپنے نئے مذہب کا مزید گہرائی اور توجہ سے مطالعہ کرتی رہے گی۔
سیشن ختم ہوا، مس عالیہ بدر الشواف اور دیگر اساتذہ اپنا کام ختم کر کے واپس حماہ چلے گئے۔ ابھی وہ امل کو وہاں لانے کا پروگرام بنا ہی رہے تھے کہ ایک روز بدر الشواف کو امل کا ٹیلی گرام ملا کہ جلدی حساقہ پہنچئے، میں سخت خطرے میں ہوں۔ اس پر بدر نے فوری طور پر ٹیکسی لی اور چند گھنٹوں میں اسپتال کے سامنے مسجد کے دروازے پر پہنچ گئے۔ عالیہ امل کے پاس گئی، اسے صورتِ حال سے باخبر کیا اور تھوڑی ہی دیر کے بعد امل ان کے ساتھ ٹیکسی میں حماہ کی طرف محوِ سفر تھی۔
شام تک امل کے والدین کو اندازہ ہوگیا کہ امل ان کی پہنچ سے دور جاچکی ہے۔ دوسری صبح انہوں نے مقامی پادری کو ساتھ لیا اور اپنی گاڑی پر حماہ پہنچ گئے۔ وہاں انہوں نے پولیس کو شکایت کی کہ بدر الشواف نام کے ایک استاد ان کی بیٹی کو اغوا کر کے لے آئے ہیں۔ پولیس نے فوراً ہی مذکورہ صاحب سے رابطہ قائم کیا اور تھوڑی ہی دیر میں بدر اور امل تھانے میں موجود تھے۔ پادری نے پولیس افسر سے اجازت لی اور امل کو الگ کر کے اسے نصیحت کرنا چاہی۔ ’’میری بیٹی! ہمیں پتہ ہے کہ تمہیں دھوکے سے اپنے آبائی مذہب سے بدظن کر کے نیا دین اختیار کرنے پر ورغلایا گیا ہے۔ ہوش میں آؤ اور اپنے اصل دین اور والدین اور خاندان کی طرف پلٹ آؤ، اسی میں بہتری ہے، ورنہ نقصان ہی نقصان ہے۔‘‘
امل نے پادری کی نصیحت اور دھمکی کو نظر انداز کرتے ہوئے جواب میں کہا ’’میں کسی کے ورغلانے میں نہیں آئی۔ میں نے اپنی مرضی سے آزاد مطالعے سے خوب غور و فکر کے بعد اسلام قبول کیا ہے کہ یہی دین فطرت ہے۔ جب کہ عیسائیت تضادات اور واہموں کے سوا کچھ نہیں۔ میں آپ کو بھی دعوت دیتی ہوں کہ براہِ کرم آپ بھی دانائی سے کام لیں اور گمراہی کو ترک کر کے اسلام کی رسی کو تھام لیں۔‘‘
یہ سن کر پادری ہکا بکا رہ گیا، وہ بہت پریشان ہوا۔ اس نے یہ سب کچھ امل کے والدین کو بتا دیا۔ اب انہوں نے پینترا بدلا اور پولیس کو بتایا کہ گھر سے آتے ہوئے امل بھاری رقم اور سونا چوری کرکے لے آئی ہے اور اس سلسلے میں ضروری تفتیش کے لیے اس کا حساقہ جانا بہت ضروری ہے۔ پولیس افسر نے یہ مطالبہ ماننے سے انکار کر دیا اور انہیں عدالت میں مقدمہ دائر کرنے کا مشورہ دیا۔ اس نے یقین دلایا کہ مقدمے کے فیصلے تک امل حماہ میں ایک مشہور عالمِ دین اور صاحب حیثیت شخص شیخ توفیق صباغ کی تحویل میں رہے گی۔
امل کے والدین نے ایک اور چال چلی کہ دراصل امل کا دماغی توازن درست نہیں اور یہ سب کچھ اس نے غیر متوازن ذہنی حالت میں کیا ہے۔ وہ اسے حساقہ لے جانا چاہتے ہیں، تاکہ اس کا مناسب علاج کرا سکیں۔ لیکن پولیس آفیسر نے ان کا یہ مؤقف بھی تسلیم نہ کیا اور اصرار کے ساتھ مشورہ دیا کہ وہ عدالت سے رجوع کریں، عدالتی فیصلے کے بعد ہی وہ ان کی کچھ مدد کرسکتا ہے۔
چنانچہ امل کے والدین نے دمشق کی ایک عدالت میں مقدمہ دائر کر دیا۔ امل عدالت میں پیش ہوئی، اس نے دوٹوک انداز میں اپنا نقطہ نظر پیش کیا اور بڑی تفصیل کے ساتھ بتایا کہ اسلام کی کن خوبیوں سے وہ متاثر ہوئی اور عیسائیت سے کیوں بد ظن ہوئی؟ اس نے بڑے اعتماد سے بتایا کہ اسلام کو سمجھنے کے لیے اس نے خوب مطالعہ کیا ہے، راتوں کو جاگ جاگ کر غور و فکر کیا ہے اور جب اس پر صداقت واضح ہوگئی تو اس نے اسے قبول کر لیا۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment