حکایات مولانا رومی

ایک دُور اندیش بادشاہ اپنے حُسنِ صورت و حسنِ سیرت سے آراستہ بیٹے کا رشتہ کسی زاہد و پرہیزگار صالح خاندان میں کرنا چاہتا تھا۔ باد شاہ نے جب یہ بات شہزادے کی ماں سے کی تو اس نے بادشاہ سے کہا کہ آپ صالحیت اور تقویٰ و زُہد تو دیکھ رہے ہیں، لیکن آپ کے مقابلے میں بااعتبار عزت و مال کے وہ خاندان کمتر ہے۔ بادشاہ نے جواب دیا:
گفت رو ہر کہ غم دیں برگزید
باقی غمہا خدا ازوے بُرید
’’دُور ہو بے وقوف! جو شخص دین کا غم اختیار کرتا ہے خدا اس کے تمام دیناوی غموں کو دُور کردیتا ہے۔‘‘
بالآخر بادشاہ اپنی زوجہ پر اپنی رائے کو غالب رکھنے میں کامیاب ہو گیا اور شہزادے کی شادی وہیں صالح خاندان میں کردی۔
شادی کو ہوئے کافی عرصہ گزر گیا۔ شہزادے کے ہاں کوئی اولاد نہ ہوئی۔ بادشاہ کو فکر لاحق ہوگئی کہ کیا بات ہو سکتی ہے۔ شہزادے کی بیوی بہت خُوبرو اور حسین وجمیل بھی ہے۔ لیکن اولاد کیوں نہیں ہو رہی۔ بادشاہ نے اپنے مخصوص مشیروں اور علماء کو جمع کیا اور خیفہ طور پر اس مسئلے کے بارے میں مشاورت کی۔
تحقیق سے ملعوم ہوا کہ اس شہزادے پر ایک بوڑھی عورت نے جادو کر دیا ہے۔ جس سے یہ اپنی حسین اور رشکِ قمر بیوی سے نفرت کرتا ہے۔ بیوی کے بجائے اس جادوگرنی بوڑھی عورت کے پاس جاتا ہے۔ بسبب جادو کے وہ اس عشق میں عرصہ داز سے گرفتار ہے۔
بادشاہ کو اس بات سے بے حد غم اور صدمہ ہوا۔ اس نے بہت صدقہ و خیرات کیا اور سر سجدے میں رکھ کر خُوب رویا، جب سر سجدے سے اُٹھایا تو ایک ’’مرد‘‘ غیب سے نمودار ہوا اور کہنے لگا: ’’آپ ابھی میرے ساتھ قبرستان چلیں۔‘‘
بادشاہ اس کے ساتھ قبرستان گیا۔ انہوں نے ایک پُرانی قبر کھودی، اس میں ایک بال نکلا، جس میں جادو کے ذریعے سے سو گرہیں لگائی گئی تھیں۔
اس مردِ غیبی نے ایک ایک گرہ کو دم کر کے کھولنا شروع کیا۔ ادھر شہزادہ صحت یاب ہوتا گیا۔ آخری گرہ کھلتے ہی شہزادہ اس خبیث بوڑھی جادوگرنی کے عشق سے نجات پا گیا اور اس کی آنکھوں کی نظر بندی بھی جاتی رہی، جس سے اسے اپنی حسین بیوی خراب اور بُری، مگر وہ خبیث بوڑھی عورت خوبصورت معلوم ہوتی تھی۔ پھر جب وہ شہزادہ اس بوڑھی عورت کے پاس گیا تو اسے دیکھ کر اس کو نفرت و کراہت شدیدہ محسوس ہوئی اور وہ اپنی عقل پر حیرت کر رہا تھا۔ جب اس نے اپنی بیوی کو دیکھا، اس کا حسین چہرہ مثلِ چاند دیکھ کر بے ہوش ہوگیا۔ جب اسے ہوش آیا تو اس نے خدا کا شکرادا کیا، جس نے مجھے اس سحر انگیزی سے نجات دی۔
درس حیات:
٭ انسان اس شہزادے کی مثل ہے اور یہ دنیا اس مکار بوڑھی جادوگرنی عورت کی مثل ہے۔ جس نے عاشقانِ دنیا پر جادو کر رکھا ہے، جس سے وہ اس دنیا کے فانی رنگ و بُو کے عشق میں مبتلا ہو کر آخرت، خدا اور اس کے رسولؐ کے انوار و تجلیات کو بھول چکے ہیں۔
عشق مجازی
اصلاحِ نفس کے لئے ایک آدمی کسی نیک بزرگ کی خدمت میں حاضر ہوا اور شیخ (بزرگ) کے تجویز کردہ اوراد و وظائف کو پابندی کے ساتھ پڑھنے لگا۔ شیخ کے گھر سے ایک خادمہ اس کے لئے کھانا لایا کرتی تھی۔ چند دنوں کے بعد اصلاحِ نفس کرنے والا آدمی نفس کے جال میں پھنسنا شروع ہو گیا۔
وہ آہستہ آہستہ خادمہ کے عشق میں مبتلا ہو گیا۔ جب خادمہ کھانا لے کر آتی… وہ اسے دیکھتا رہتا۔ خادمہ نیک بزرگ کی نوکر تھی۔ اس نے صاف صاف شیخ صاحب کو بتلا دیا کہ حضور آپ کا فلاں مرید میرے عشق میں مبتلا ہو گیا ہے۔ اب اس اورادو وظائف سے کیا نفع ہوگا۔ پہلے اس کا یہ مسئلہ حل کریں۔
شیخ صاحب یہ سُن کر خاموش ہوگئے اور خدا عزوجل کی بارگاہ میں دُعا کرنے لگے کہ الٰہی مجھے اس مسئلے کا حل عطا فرما۔ چند دنوں کے بعد شیخ صاحب نے خادمہ کو اسہال کی دوا دی اور ساتھ حکم دیا کہ تجھے جتنے دست آئیں، سب کو ایک طشت میں جمع کرتی رہنا… یہاں تک کہ اس کو بیس دست ہوئے، جس سے وہ انتہائی کمزور اور لاغر ہوگئی۔ چہرہ پیلا ہوگیا۔ آنکھیں دھنس گئیں۔ رخسار اندر کو بیٹھ گئے۔ ہیضے کے مریض کی طرح خادمہ کا چہرہ بھی مکروہ سا ہوگیا۔ اور تمام حسن جاتا رہا۔
شیخ نے خادمہ سے کہا آج اس کا کھانا لے جا اور خود بھی آڑ میں چُھپ کر کھڑے ہوگئے۔ اس عاشق مرید نے جیسے ہی خادمہ کو دیکھا۔ کھانا لینے کے بجائے اس کی طرف سے چہرہ پھیر لیا اور کہا کھانا وہاں رکھ دو۔ شیخ فوراً آڑ سے نکل آئے اور ارشاد فرمایا کہ اے بے وقوف آج تُو نے اس خادمہ سے رُخ کیوں پھیر لیا، اس کنیز سے کیا چیز گم ہوگئی جو تیرا عشق آج رخصت ہوگیا۔ پھر شیخ نے حکم دیا کہ وہ گندگی کا طشت اُٹھالا، جب اس نے وہ طشت سامنے رکھ دیا تو شیخ نے مرید کو مخاطب کر کے فرمایا کہ اے بے وقوف اس خادمہ کے جسم سے سوائے اتنی مقدار گندگی کے اور کوئی چیز خارج نہیں ہوئی۔ معلوم ہوا کہ تیرا عشق درحقیقت یہی گندگی تھا۔ جس کے نکلتے ہی تیرا عشق غائب ہوگیا۔
درسِ حیات:
٭ اے لوگو! جس گھنگھرو والی زلفِ مشکبار پر آج تم فریفتہ ہو، یہی زُلف تم کو ایک دن بوڑھے گدھے کی دُم کی طرح بُری معلوم ہوگی۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment