حضرت ربیعہؒ کا مقام و مرتبہ:
فروخؒ مسجد نبویؐ پہنچے، انہوں نے اس کے پاکیزہ اور مبارک ماحول میں دل لگا کر فجر کی نماز ادا کی، پھر روضۂ رسولؐ پر گئے، صلاۃ و سلام پڑھا، پھر ’’ریاض الجنۃ‘‘ کی طرف مڑے، دل میں وہاں نماز ادا کرنے کا شوق تھا، چناںچہ وہاں اشراق کے نوافل ادا کئے اور گڑگڑا کر دعائیں مانگیں۔
جب مسجد سے جانے کا ارادہ کیا تو دیکھا کہ اس کے صحن میں ایک ایسی علمی محفل جمی ہوئی ہے، جس کی شان نرالی تھی اور اس سے پہلے انہوں نے اس قسم کی مجلس کہیں نہیں دیکھی تھی۔ لوگ شیخ کی مجلس کے گرد حلقہ بنا کر بیٹھے ہوئے تھے، مجمع اتنا تھا کہ تھوڑی سی بھی جگہ باقی نہ تھی، انہوں نے مجلس میں بیٹھے ہوئے لوگوں پر ایک سرسری نگاہ دوڑائی اور دیکھا کہ اس میں بڑی عمر والے لوگ سروں پہ پگڑیاں باندھے باادب بیٹھے ہیں اور ان میں ایسے لوگ بھی ہیں، جو بظاہر بڑے معزز دکھائی دیتے ہیں۔
بہت سے نوجوان قلم ہاتھ میں لیے دوزانو بیٹھے شیخ کی ہر بات کو اپنی کاپیوں میں اس طرح لکھ کر محفوظ کر رہے تھے، جیسے عمدہ چیزوں کو محفوظ کیا جاتا ہے۔ سبھی شیخ کی طرف نظریں جمائے دیکھ رہے تھے اور پوری خاموشی، ادب و احترام اور توجہ سے بغیر حرکت کئے شیخ کی باتیں سن رہے تھے، جیسا کہ ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہوئے ہوں۔
حاضرین میں بات کو دور تک پہنچانے کے لیے ایک ’’مکبر‘‘ شیخ کے بیان کا ایک ایک جملہ بآوازِ بلند دوہرا رہا تھا، تاکہ دور بیٹھے ہوئے لوگوں تک ان کی ہر بات آسانی سے پہنچ جائے اور اہل مجلس میں سے کوئی بھی کسی جملے سے محروم نہ رہے۔
فروخؒ کے دل میں شیخ کو دیکھنے کا شوق پیدا ہوا، لیکن زیادہ فاصلہ ہونے کی وجہ سے چہرہ صاف دکھائی نہ دے رہا تھا، شیخ کی خوش بیانی… علمی مقام… حیرت انگیز قوتِ حافظہ… اور شیخ کے سامنے لوگوں کی بے پناہ محبت اور عاجری و انکساری نے فروخؒ کے دل پر گویا جادو کر رکھا تھا۔
تھوڑی دیر بعد شیخ نے مجلس برخاست کر دی اور اٹھ کھڑے ہوئے، حاضرینِِ مجلس تیزی سے ان کی طرف لپکے، ان کے پاس لوگوں کی بہت بھیڑ ہوگئی اور لوگوں نے محبت بھرے انداز میں انہیں اپنے گھیرے میں لے لیا اور انہیں الوداع کرنے مسجد ِ نبویؐ کے باہر تک ان کے پیچھے گئے۔ اس موقع پر فروخؒ نے اپنے پاس بیٹھے ہوئے ایک شخص سے پوچھا: خدا کے لیے مجھے یہ تو بتا دیں کہ یہ بلند پایہ شیخ کون ہیں؟
اس شخص نے تعجب سے کہا: ’’کیا آپ مدینہ منورہ میں نہیں رہتے!‘‘
فروخ نے کہا: ’’کیوں نہیں! میں مدینہ کا باسی ہوں۔‘‘
اس شخص نے کہا: ’’مدینہ میں ایسا کون ہے جو اس شیخ کو نہیں جانتا؟‘‘
فروخ نے کہا: ’’اگر میں اسے نہیں جانتا تو مجھے معذور سمجھیں۔ کیوں کہ میں تیس سال قبل خدا کے راستے میں جہاد کے لیے مدینہ سے چلا گیا تھا، کل ہی واپس لوٹا ہوں۔
اس شخص نے کہا چلئے کوئی بات نہیں۔ آیئے میرے پاس بیٹھئے، میں آپ کو اس شیخ کے متعلق بتاتا ہوں۔ جس شیخ کا بیان آپ نے مجلس میں سنا ہے۔ یہ تابعین کے سردار اور امت مسلمہ کے بہت بڑے عالم ہیں، نو عمری کے باوجود مدینہ کے محدث، فقیہ اور امام ہیں۔
یہ سن کر فروخ نے کہا: ’’خدا تعالیٰ نظر بد سے بچائے۔‘‘ اس شخص نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا: ان کی یہ اکابرین کی یاد دلاتی ہے۔ فروخؒ کچھ کہنے لگے، لیکن اس شخص نے انہیں بات کرنے کی مہلت نہ دی، بلکہ اس نے بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا: ان سب خوبیوں کے علاوہ بڑی خوبی یہ ہے کہ شیخ خوش اخلاق، نیک سیرت، نرم مزاج اور بہت زیادہ سخی بھی ہیں، اہل مدینہ نے دوست اور دوستوں کی اولاد کے لیے ان سے بڑھ کر کوئی سخی نہیں دیکھا اور نہ ہی ان سے بڑھ کر دنیا کی چیزوں میں شوق نہ رکھنے والا اور آخرت کی چیزوں کی طرف سب سے زیادہ شوق رکھنے والا دیکھا۔
فروخ نے کہا: آپ نے ان کی تعریف ہی کیے جا رہے ہیں، لیکن ابھی تک ان کا نام نہیں بتایا۔ اس شخص نے بتایا ان کا نام ربیعہ رائی ہے۔ فروخ نے تعجب سے پوچھا: ربیعہ رائی!! اس نے کہا: ہاں! ان کا نام ربیعہ ہے، لیکن مدینہ کے علماء اور مشائخ انہیں ربیعہ رائی کے نام سے پکارتے ہیں۔ ان کی علمی شان و شوکت کے کیا کہنے! جب علمائے مدینہ کو کسی درپیش مسئلہ میں قرآن و سنت سے واضح دلیل نہیں ملتی، تو وہ ان سے رجوع کرتے ہیں اور وہ اپنے اجتہاد سے اس کا ایک ایسا حل پیش کرتے ہیں، جس سے علماء مطمئن ہو جاتے ہیں۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭