تم نے حج ادا ہی نہیں کیا

یہ شہر بغداد کا واقعہ ہے جو اپنے وقت میں متمدن دنیا کا سب بڑا علمی اور تہذیبی مرکز تھا اور اسی شہر کے ایک گوشے میں ایک مردِ خدا، بندگانِ خدا کے دلوں کی کثافت دھونے کے مشکل ترین کام میں مصروف تھا۔ ایک دن ایک شخص درویش کی خانقاہ میں حاضر ہوا، درویش نے حسبِ معمول مہمان کی تواضع کی اور پھر پوچھا: ’’میرے بھائی! تم کہاں سے آرہے ہو؟‘‘
جواب میں اس شخص نے کہا ’’میں حج کی سعادت حاصل کر کے آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں، تاکہ شیخ کی روحانی برکات سے فیض یاب ہو سکوں‘‘
جو شخص خدا کی بارگاہ میں حاضر ہو چکا ہو، اسے ایک انسان کے پاس آنے کی کیا ضرورت ہے؟‘‘ درویش نے اپنے عقیدت مند کو ٹوکتے ہوئے کہا۔ ’’جو ذاتِ اقدس اپنے ایک ایک بندے کی کفیل ہو، اس نے تمہیں بھی محروم نہیں رکھا ہوگا۔‘‘ اس شخص نے درویش کی بات سنی، مگر اپنی ضد پر قائم رہا۔ ’’شیخ! مجھے آپ کا فیضِ صحبت درکار ہے، میں بڑی توقعات لے کر حاضر ہوا ہوں۔ برائے خدا آپ مجھے مایوس نہ کیجئے گا۔‘‘
درویش نے کچھ دیر کیلئے سکوت اختیار کیا، پھر اس شخص کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ’’جب سے تم حج کیلئے گھر سے نکلے ہو، کیا تم نے گناہوں سے بھی اجتناب کیا ہے؟‘‘ اس شخص نے نفی میں جواب دیا۔
درویش نے کہا ’’اس کا مطلب ہے کہ تم سفر میں نہیں تھے۔‘‘ پھر اس شخص سے پوچھا’’سفر کے دوران جب تم رات گزارنے کیلئے سرائے میں ٹھہرے تو کیا تم نے کوئی مقام قرب طے کیا؟‘‘ اس شخص نے بڑی حیرت سے درویش کی طرف دیکھا اور نفی میں اپنے سر کو جنبش دی۔ درویش نے تاسف آمیز لہجے میں کہا ’’اس کا مفہوم یہ ہے کہ تم نے منزل بہ منزل سفر طے نہیں کیا۔‘‘
اس کے بعد درویش نے اس شخص سے ایک اور سوال کیا ’’پھر جب تم نے احرام باندھا تو اپنے سابقہ لباس کے ساتھ ساتھ انسانی کمزوریوں مثلاً خود بینی، بغض، حسد اور حرص وطمع کو بھی اپنے آپ سے دور کیا یا نہیں؟‘‘ درویش کے سوالات سن کر اس شخص کی حیرت میں مزید اضافہ ہو گیا تھا۔ ’’میں اپنی ایسی کسی کمزوری پر قابو نہیں پا سکا۔‘‘ درویش نے کہا: ’’پھر تم نے احرام ہی نہیں باندھا۔‘‘
اس کے بعد اس شخص سے پوچھا ’’جب تم نے عرفات کے میدان میں وقوف کیا تو مراقبہ ذات باری کیا؟‘‘ جب اس شخص نے نفی میں جواب دیا تو درویش نے کہا ’’پھر تو تم نے وقوف ہی نہیں کیا۔‘‘ اسی طرح درویش نے اس شخص سے مسلسل سوالات کئے۔
’’جب تم مزدلفہ پہنچے تو تمام نفسانی خواہشات سے قطع تعلق کیا؟‘‘
’’جب تم نے خانۂ کعبہ کا طواف کیا تو جمال ذاتِ باری کا مشاہدہ کیا؟‘‘
’’جب تم نے صفا اور مردہ کے درمیان سعی کی تو مقام صفا حاصل کیا یا نہیں؟‘‘
پھر جب تم ’’منیٰ‘‘ میں آئے تو تم نے اپنی نفسانی خواہشات کو قربان کیا؟‘‘
’’پھر جب تم نے رمی جمار کی تو اپنی حیوانی حسرتوں اور آرزوؤں کو بھی دل سے نکال کر دور پھینکا یا نہیں؟‘‘
وہ شخص ہر سوال کا جواب نفی میں دیتا رہا تو درویش نے کسی تکلف کے بغیر کہا ’’میرے بھائی! تم نے سرے سے حج ہی نہیں کیا۔ واپس جاؤ اور دوبارہ اس طرح حج کرو، جیسے میں نے تمہیں بتایا ہے، تاکہ تم مقام ابراہیمی تک پہنچنے کی سعادت حاصل کر سکو۔‘‘ یہ درویش مشہور صوفی بزرگ حضرت جنید بغدادیؒ تھے۔ قارئین اسی ایک واقعے سے اندازہ کر سکتے ہیں کہ حضرت جنید بغدادیؒ کی عارفانہ شان کیا تھی؟
حضرت جنید بغدادیؒ نے فقہ کی تعلیم حضرت ابوثورؒ سے حاصل کی، تصوف کے رموز و نکات حضرت حارث محاسبیؒ سے سیکھے اور خرقہ خلافت مشہور صوفی بزرگ حضرت سری سقطیؒ سے حاصل کیا، جو آپؒ کے حقیقی ماموں بھی تھے۔ جذب و کیف کی انتہائی منزلیں طے کرنے کے باوجود حضرت جنید بغدادیؒ ہمیشہ احتیاط اور ہوش کی حالت میں رہے۔ آپؒ کی عارفانہ عظمتوں پر تمام اولیائے کرام متفق ہیں۔ اسی لئے آج بھی آپؒ کو سید الطائفہ (صوفیوں کے سردار) کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔
آپؒ کا خاندانی نام جنید تھا، والد محترم کا نام محمد اور دادا کا نام جنید قواریری تھا، دادا کے نام پر آپ کا نام رکھا گیا۔ ابوالقاسم آپ کی کنیت تھی، حضرت جنید بغدادیؒ کی تاریخ پیدائش میں شدید اختلاف ہے۔ اکثر مؤرخین نے آپ کا سن پیدائش تحریر ہی نہیں کیا، بعض تذکرہ نگاروں نے نہایت محتاط انداز میں 215ھ کو حضرت جنیدؒ کا سالِ ولادت قرار دیا ہے۔ آپؒ کے آبا و اجداد ’’نہاوند’’ کے باشندے تھے۔ آل سامان کے دورِ حکومت میں اس قدیم شہر کو تاریخی اہمیت حاصل تھی۔ دولتِ ایران اور مملکتِ عثمانیہ کے درمیان میں جو متنازع کوہستانی علاقہ ہے، ان دنوں علاقہ جبل کے نام سے مشہور تھا۔ دولت عباسیہ کے آخری زمانے تک پہاڑی علاقے کا صدر مقام یہی شہر ‘‘نہاوند’’ تھا۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment